پانامہ کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے محفوظ کرلیا۔ مناسب وقت پر اس کا اعلان ہوگا۔ یہ سکوت بھی عجب ہوتا ہے، کچھ لوگ اسے طوفان کے آنے سے پہلے کا اشارہ قرار دیتے ہیں تو کوئی اس خاموشی کو قدرت کی طرف سے ملنے والا ریلیف کہتے ہیں۔ اب پانامہ کیس کا فیصلہ کیا آتا ہے اور کب آتا ہے اس پر رائے زنی کرنا عبث ہے۔ مگر اسکے باوجود پاکستان کا ہر شہری خواہ میٹرک فیل ہو یا پی ایچ ڈی سکالر بیک وقت ماہر قانون ماہر سماجیات، ماہر اخلاقیات اور ماہر قانون بن کر میڈیا سے لیکر تھڑوں تک اپنی اپنی مہارت جمانے کے چکروں میں مصروف ہے۔ کئی پارسا جن کیلئے میر نے کہا تھا؎
تر دامنی پہ آپ ہماری نہ جائیو
دامن اگر نچوڑ لیا فرشتے وضو کریں
شریف برادران پر انکے اہلخانہ پر ایسے الزام تراشی کرتے نظر آتے ہیں کہ گویا وہ خود کو گنگا نہائے ہوئے ہیں۔ اسے ہم ’’چھاننی کوزے کو کہے دوموریا‘‘ والی بات بھی کہہ سکتے ہیں۔ جس طرح بے نظیر بھٹو کیخلاف ضیاالحق دور میں انکے مخالفین جو خود کو اسلام کے ٹھیکیدار کہتے تھے نے اخلاق سے گری ہوئی مہم چلائی۔انکی ذات پر کیچڑ اچھالا آج پھر اس دور کی یاد تازہ کردی ہے۔ بہرحال یہ تو اپنے اپنے ظرف کی بات ہے، اصل بات یہ ہے کہ کیا ہمارے سیاستدان بھول جاتے ہیں کہ اس حمام میں سبب ننگے ہیں۔ کسی پر اسکے خاندان اور اہلخانہ کے حوالے سے انگلی اٹھانے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ انکے گھر والوں پر بھی انگلی اٹھ سکتی ہے۔ کرپشن کیخلاف عدالتی جنگ برحق ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کے دعوے برحق کرپشن میں ملوث افراد کو سزا دلوانا برحق مگر اس کام کی آڑ میں سیاسی مقابلہ بازی اخلاق سے گری حرکات بیان بازی سیاسی جنگ کو ذاتی جنگ بنا دینا کیا عوام کے حق میں بہتر ہے عوام پہلے بھی ملکی حالات اور سیاست سے پریشان ہیں۔ رائے عامہ کو منفی راہ پر لے جانا کہاں کی دانشمندی ہے۔ کل اگر یہی اپوزیشن برسراقتدار ہو تو کیا موجودہ حکمران جماعت انہیں چین سے حکومت کرنے دیگی۔ کیا وہ بھی دھرنا، بائیکاٹ اور عدالتی جنگ کا ماحول برپا نہیں کریگی۔ سیاست میں تحمل، برداشت اور اخلاقیات کا دامن کسی کو ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) ہو یا تحریک انصاف، پیپلزپارٹی ہو یا کوئی اور جماعت سب کو ملک کے مستقبل کیلئے سوچنا چاہیے۔ تمام تر اختلافات کے باوجود اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ موجودہ حکومت کے دور میں ملک کی اقتصادی حالت‘ عوام کی معاشی حالت اور سماجی حالات میں بہتری آئی ہے۔ یہ بہتری اگرچہ اس درجہ کی نہیں جس پر عوام سکون کا سانس لیں یا حکمران خوشی کے شادیانے بجائیں۔مگر اسکے باوجود ناقدین لاکھ اختلاف کریں۔ عالمی غیر ملکی اقتصادی ماہرین نے پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح میں بہتری اور اسکے آگے بڑھنے کی (گروتھ) کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تنبیہ کی ہے کہ اگر سیاسی حالات خراب نہ ہوئے حکومت کو کام کرنے کا موقع دیا گیا تو اس میں مزید بہتری آسکتی ہے۔ اس وقت ملک میں سرمایہ کاری کی رفتار زیادہ تیز نہیں مگر بہتر رہی ہے غیر ملکی سرمایہ کار اس ابھرتی ہوئی معیشت اور اقتصادی گروتھ سے متاثر ہیں چین کی طرف سے سی پیک منصوبوں پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے دیگر غیر ملکی حکومتوں اور سرمایہ کاروں کو بھی حوصلہ ہورہا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں۔ اگر ہمارے سیاسی حالات اور ملک میں امن وامان کی حالت بہتر ہو تو غیر ملکی سرمایہ کار پورے اعتماد کے ساتھ پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔ مگر ہماری سیاسی بدامنی اور بگڑتی صورتحال کی وجہ سے وہ خوفزدہ ہیں۔ شریف برادران کی ذاتی کوششوں اور کاروباری پالیسیوں کی وجہ سے چین اور ترکی ان حالات میں بھی پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وزیراعظم موجودہ اعصاب شکن حالات میں بھی ملکی اقتصادی ترقی کیلئے بیرون ملک دورے میں ان ممالک کو ان ممالک کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دیتے ہیں۔ پاکستان اکنامک سروے 2016-17 میں موجودہ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کو مثبت قرار دیتے ہوئے اسکی بدولت ملک میں مالی استحکام اور عوام کی قوتِ خرید میں اضافہ کے ساتھ مہنگائی کم ہونے اور اس پر حکومتی کنٹرول کی تعریف کی گئی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ بجلی، پانی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے مثبت اثرات بھی عوام اور صنعتی و تجارتی اداروں پر براہ راست پڑنے سے عوام کی قوت خرید میں اضافہ اور ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور غیر ملکی اداروں اور حکومتوں کی طرف سے مالی پالیسیوں میں مثبت پالیسیوں کی تعریف کی ہے۔ سٹاک مارکیٹ کی شرح بلند ترین حدود کو عبور کرچکی ہے۔ زبردست سیاسی بحران کے باعث سٹاک مارکیٹ کریش ہونے کے باوجود ہنوز بلند ترین شرح کاروبار پر موجود ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ عوام کو تاجروں اور صنعتکاروں کو حکومتی پالیسیوں پر اعتماد ہے۔ اگر حکومت کو وصولیوں کی مد میں بھی ان طبقوں کا اعتماد حاصل ہوجائے اور عام ٹیکس گزار طبقے خوش دلی اور ایمانداری سے ٹیکس ادا کرنے لگیں تو ملک غیر ملکی امداد کی ضرورت کم سے کم پڑسکتی ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے ٹیکس ادا کرنے کا رجحان بہت کم ہے وہ بھی ایمانداری سے ادا نہیں ہوتا۔اگر ٹیکس نیٹ کا دائرہ عالمی اداروں اور آئی ایم ایف کے رولز کے مطابق بڑھا جائے تو حکومت کی آمدنی بڑھ سکتی ہے اور ملکی خزانے پر اسکا بہتر اثر ہوگا۔ اس وقت ملکی خزانہ کی صورتحال بہت بہتر نہیں تو بدتر بھی نہیں کہی جاسکتی۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہیں۔ حکومت کی پالیسیوں کے سبب مالی حالات بہتر ہورہے ہیں۔ توانائی کے منصوبوں کی تکمیل سے صنعتی و تجارتی پیسہ ایک بار پھر پوری طاقت کے ساتھ چل پڑے تو پاکستان کی مشکلات کا دور ختم ہوسکتا ہے مگر اس کیلئے سب سے زیادہ ضرورت سیاسی استحکام اور لاء اینڈ آرڈر کی حالت بہتر ہونے پر منحصر ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔ میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف کی قیادت میں اس وقت حکومت اور حکومتی پارٹی متحد ہے سے اپنے سیاسی حلیفوں کی بھرپور مدد بھی حاصل ہے۔ اگر کوئی خاص بڑا مرحلہ درپیش نہ ہوا تو مسلم لیگ (ن) اگلے الیکشن بھی جیت سکتی ہے۔ مختلف سروے رپورٹس میں بھی اس بات کا ذکر آچکا ہے کہ اس وقت بھی میاں نوازشریف کی حکومت اور جماعت الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ ان باتوں سے ہٹ کر آخری بات یہی ہے کہ ملک کے مستقبل کے تحفظ کیلئے عوام کی فلاح وبہبود کیلئے ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے سب اداروں کو اپنا اپنا فرض ادا کرنا ہوگا۔ ایک دوسرے کی لات کھینچنے کے بجائے جمہوریت اور معاشی ترقی کیلئے صبروتحمل کی راہ اپنانا ہوگی ورنہ آج ہم کل تمہاری باری آسکتی ہے۔