ملتان (کرائم رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) وزیراعلیٰ شہباز شریف نے تھانہ مظفر آباد کے علاقہ میں پنچایت کے فیصلے پر لڑکی سے زیادتی کا نوٹس لے لیا ہے اور اس حوالے سے سی پی او ملتان سے فوری رپورٹ طلب کر لی ہے جبکہ پولیس نے پنچایتی افراد سمیت 20 ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔ چند روز قبل شیر شاہ روڈ بستی راجہ پور میں عمر وڈا نامی ملزم نے 13 سالہ شمیم بی بی کو زیادتی کا نشانہ بنایا جس پر شمیم بی بی کے لواحقین نے نمبردار نور محمد کے ذریعے پنچایت بلا لی اور پنچایت نے زیادتی کے بدلہ زیادتی کا فیصلہ دیا۔ فیصلے کے مطابق ملزم عمر وڈا کے والد نے اپنی 16 سالہ بھتیجی عذرا کو شمیم کے رشتہ داروں کے حوالے کر دیا اور پنچایت کے سامنے شمیم بی بی کے بھائی اشفاق نے عذرا بی بی کو زیادتی کا نشانہ بنایا جس کے بعد دونوں فریقین نے خواتین داد رسی سنٹر میں ایک دوسرے کے خلاف مقدمات درج کروائے تاہم سی پی او احسن یونس نے سنگین نوعیت کا واقعہ ہونے کے باعث پنچایت کے ارکان اور زیادتی کرنے والے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا اور ملزموں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا جس کی روشنی میں پولیس نے علاقہ میں گرینڈ آپریشن کرتے ہوئے 20 ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ دیگر ملزمان کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ واقعہ کی ایف آئی آر درج ہونے پر پنچایت کے حکم پر زیادتی کرنے والا ملزم فرار ہو گیا۔ مختاراں مائی نے واقعے پر نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ تھانہ کلچر صحیح ہو گا تو ہی ملزمان کو سزا ہو گی۔ پنچایت والے خاتون کو سزا دینے کی بجائے ملزم کو گولی مار دیتے۔ آپ لوگوں کو دوسری عورت کو برباد کرنے کی کیا ضرورت تھی۔بی بی سی کے مطابق مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ ایک ہی خاندان کے دو گروہوں کے افراد، جن میں خواتین بھی شامل ہیں، نے کچھ روز قبل ایک 12 سے 14 سالہ لڑکی کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی کے واقعے میں آپس میں فیصلہ کیا کہ اس میں ملوث ملزم کے خاندان کی کسی لڑکی کے ساتھ بھی اسی طرح انتقامی جنسی زیادتی کی جائے۔ سٹی پولیس آفیسر ملتان احسن یونس نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ کوئی روایتی پنچایت نہیں تھی بلکہ ایک ہی خاندان کے لوگوں نے آپس ہی میں تمام معاملات طے کر لیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ 17 سالہ لڑکی کو انتقامی طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد دونوں فریقین میں صلح ہو گئی جس کا صلح نامہ بعد میں تفتیش کے دوران پولیس کو بھی دکھایا گیا تھا۔ ’لڑکی کی میڈیکل رپورٹ میں تصدیق ہوئی ہے کہ اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے۔ پولیس نے اپنی مدعیت میں فیصلہ دینے والے سرپنچ محمد امین اور فریقین کے 26 افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ احسن یونس نے بتایا کہ 20 افراد زیرِ حراست ہیں تاہم لڑکی کے ساتھ زیادتی کرنے والا شخص تا حال گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پولیس کے علم میں یہ واقعہ اس وقت آیا جب 16 جولائی کو بیگم مائی نامی ایک خاتون نے ویمن پولیس سٹیشن ملتان میں شکایت درج کروائی کہ عمر وڈا نامی ایک شخص نے اس کی 12 سالہ بیٹی کو مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اس نے پولیس کو بتایا کہ موقع پر کچھ افراد نے عمر وڈا کو پکڑ لیا اور گھر لے آئے تاہم اس وقت لڑکی کا باپ حق نواز گھر پر موجود نہیں تھا اس لیے اس کو چھوڑ دیا گیا۔ دونوں فریقین آپس میں رشتہ دار ہیں۔ مائی نے پولیس کو بتایا کہ اگلے روز ان کے شوہر خاندان کے ایک اور شخص محمد امین کے ہمراہ عمر وڈا کے گھر پہنچے اور ان کے والد نذیر حسین سے مبینہ زیادتی کا بدلا دینے پر اصرار کیا۔ محمد امین کے فیصلے پر یہ طے پایا کہ جس طرح 12 سالہ لڑکی کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی اس کا بدلہ بھی اسی طرح لیا جائے گا۔ جس کے اگلے روز نذیر حسین اپنی 17 سالہ بھتیجی کو لے کر ان کے گھر آئے اور اس کو بدلے کے طور پر پیش کر دیا۔ مائی کے مطابق جب 12 سالہ لڑکی کے بھائی اشفاق نے 17 سالہ لڑکی سے الگ کمرے میں ریپ کیا تو اس وقت محمد امین اور دوسرے افراد بھی گھر میں موجود تھے۔ تاہم ان کے مطابق بعدازاں نذیر حسین نے پنچایت کے صلح کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 17 سالہ لڑکی کا میڈیکل کروا کر پولیس میں رپورٹ درج کروا دی۔ اس پر اپنی درخواست میں انہوں نے بھی پولیس سے استدعا کی کہ ان کی 12 سالہ بیٹی کا میڈیکل کروانے کی اجازت دی جائے تا کہ وہ بھی عمر وڈا کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر سکیں۔ سٹی پولیس آفیسر ملتان احسن یونس نے بی بی سی کو بتایا کہ اس شکایت پر پولیس کو معاملے کا علم ہوا جس پر دوبارہ تفتیش کی گئی جس کے بعد گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تفتیش کے بعد 17 سالہ لڑکی کو زیادتی کی سزا دینے اور اس پر عمل کرنے میں ملوث تمام افراد کے خلاف تھانہ مظفر آباد میں پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔