نئی حکومت پرانے مسائل

سب سے پہلے پولنگ کے دوران بزدل دشمن کے دھماکوں سے شہید ہونے والے بے گناہ پاکستانیوں کی شہادت کے لئے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے ۔پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور زخمیوں کو جلد شفا عطا فرمائے۔ آمین۔ساتھ ہی انتخابات میں کامیاب ہونے والے ممبران کو مبارکباد۔
سیاستدان واقعی بڑے کائیاںلوگ ہوتے ہیں۔ اپنی خرابیاں، کوتاہیاں اور ناکامیاں کامیابیوں میں تبدیل کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ حالات کے مطابق مختلف روپ دھار لیتے ہیں ۔مظلوم و معصوم بن جاتے ہیں۔ جب کام نکل جاتا ہے تو ان سے بڑا ظالم اور جابر شاید ہی کوئی ہو۔ کچھ تو اس حد تک سنگدل ہوتے ہیں کہ ذاتی مفاد کے لئے اگر ملک کو بھی نقصان پہنچانا پڑے تو باز نہیں آتے۔ اگر ملک کے دشمن سے بھی مدد لینی پڑے تو خوشی سے قبول کر لیتے ہیں۔
پنجاب کے ایک بہت ہی مشہور سیاستدان نے 1977کے مارشل لاءکے دوران سب سے پہلے مارشل لاءحکام کو بیوقوف بنایا۔ انہیں اپنے لیڈر کے خلاف ثبوت فراہم کرنے کے بہانے انگلینڈ چلا گیا۔ ثبوت نہ تھے نہ لائے گئے لیکن محترم خود مارشل لاءکی سزا سے دور چلے گئے ۔انگلینڈ خوب عیاشی سے رہے۔
شنید تھی کہ بھارت بھی گئے۔”را“ سے بھی تعلقات قائم کئے۔مارشل لاءحکام کو بھارتی ٹینکوں پر بیٹھ کر پاکستان آنے کی دھمکیاں دیتے رہے۔ جب پاکستان میں سیاسی حالات تبدیل ہوئے۔ گرفتاری اور سزا کا خطرہ ٹل گیا تو محترم شان و شوکت سے مظلوم بن کر پاکستان واپس تشریف لائے۔ اگلے انتخابات میں امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے۔ علاقے کے لوگوں کو اکٹھا کر کے جلسہ کیا۔عوام کے سامنے اپنی مظلومیت کا رونا رویا۔” میں آپ لوگوں کے لئے جلا وطن ہوا ۔میں نے پردیس میں بھوکے رہ کر وقت گزارا۔پیٹ کے لئے مزدوری کی مگر آپ لوگوں کی عزت پر حرف نہ آنے دیا۔ مجھے پھانسی پر بھی لٹکا دیں مگر میں آپ کی خدمت پر کمربستہ رہوں گا۔“
یہ تقریر کچھ اسطرح مظلومانہ انداز میں کی گئی کہ خواتین اور ان پڑھ دیہاتیوں نے رونا شروع کر دیا کہ محترم نے ہمارے لئے اتنی تکالیف برداشت کیں۔ بھوک کاٹی، مزدوری کی ، پردیس کاٹا ۔نتیجہ یہ نکلا کہ پورے عوام محترم کے حق میں ہو گئی۔ محترم دھڑلے سے کامیاب ہوئے۔ نئی حکومت میں وزیر بھی بنے۔ شنید ہے کہ محترم اپنے ادارے کے طیارے پر شکار کھیلنے جاتے تھے اور کتے بھی ساتھ ہوتے تھے۔ یہ ہے ہمارے راہنماﺅں کی سیاست کا انداز۔ اس دفعہ بھی کچھ بڑے سیاستدان عوام کی ہمدردی میں اسی قسم کے بیانات دے رہے ہیں۔ میڈیا کے مطابق ایک بلند پایہ سیاستدان نے تو اقتدار کے حصول کے عوض اپنا ایٹمی پروگرام ختم کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔اتنے بلند کردار کے مالک ، اتنے محب وطن اور عوام کے خدمت گزار لیڈر تو شاید ہی کسی قوم کو نصیب ہوئے ہونگے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے انتخابات مکمل ہو چکے ہیں۔ خلوص دل سے یا عوام کو بے وقوف بنا کر عوامی نمائندے منتخب ہو چکے ہیں۔ ان سب کو مبارکباد۔نئی حکومت کے خدوخال واضح ہو رہے ہیں پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور اہے پر کھڑا ہے۔ ہر طرف سے مشکلات میں گھرا ہے۔ دشمن چیلوں کی طرح پاکستان پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔پاکستان کو مسائل سے نکالنا اب نئی حکومت کا فرض ہے۔
پاکستان کا سب سے پہلا مسئلہ تو اس وقت پاکستان کی معاشی حالت ہے۔آئی ایم ایف نے بیل آﺅٹ پیکج دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ملک ناکام ریاست کی طرف بڑھ رہا ہے۔ہمارا اندرونی اور بیرونی قرضہ سو ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ ہمارے روپے کی قدر اس حد تک گر چکی ہے کہ ڈالر131روپے تک پہنچ گیا ہے جبکہ افغانستان جیسے جنگ سے تباہ حال ملک میں بھی ڈالر72.35کاہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے سابقہ معاشی راہنماﺅں نے کتنی محنت اور خلوص سے وطن کی خدمت کی ہے۔ روپے کی بے قدری کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا سونامی آچکا ہے۔ زندگی عذاب بن چکی ہے۔
ہمارے اپنے ملک میں پیدا ہونیوالی سبزیاں اور دالیںتک یاتو نایاب ہو چکی ہیں اور اگر کبھی ملتی بھی ہیں تو قیمتیں اتنی بلند ہیں کہ غریب آدمی نیچے کھڑے ہو کر عید کے چاند کی طرح صرف دیکھ سکتے ہیں۔خرید نہیں سکتے۔
پاکستان کا دوسرا اہم ترین مسئلہ اس وقت ہماری خارجہ پالیسی کی سر عام ناکامی ہے۔ ملک کی کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ پچھلی حکومت میں چار سال تک ہمارا کوئی وزیر خارجہ ہی نہ رہا اس لئے کوئی مضبوط اور بااثر خارجہ پالیسی نہ آ سکی۔ وزیر خارجہ نہ ہونے کی وجہ سے وزیراعظم صاحب ساری دنیا کی سیریں کرتے رہے مگر ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ تھوڑے عرصے کے لئے جو وزرائے خارجہ بنائے گئے ان میں نہ خارجہ پالیسی بنانے کی صلاحیت تھی اور بین الاقوامی طور پر نہ پیچیدہ مسائل حل کرنے کی صلاحیت۔
نتیجتاً ملک پوری دنیا میں تنہائی کا شکار ہو گیا ۔ یہاں تک کہ ہمارے پڑوسیوں کے علاوہ ہمارے دوست بھی ہم سے دور ہوگئے۔ بھارت کی دشمنی تو سمجھ آتی ہے مگر ایران اور افغانستان ہمارے برادر اسلامی پڑوسی ہیں۔ وہ بھی ہم سے خوش نہیں۔
بہت افسوس کی بات ہے کہ ہم نے ایران سے گیس پائپ لائن کا معاہدہ 2013میں کیا تھا۔ ایران نے اپنے علاقے میں اپنے حصے کی گیس پائپ لائن تعمیر کر دی مگر امریکہ کے ڈر سے ہم آج تک یہ پائپ لائن تعمیر نہیں کر سکے جبکہ ہمارے مقابلے میں بھارت وہاں چاہ بہار بندرگاہ تعمیر کر رہا ہے جو جزوی طور پر فنکشنل بھی ہو چکی ہے اور اسکا انتظامی ٹھیکہ بھی ڈیڑھ سال کے لئے بھارت کو مل گیا ہے۔ بھارت نے اس بندر گاہ پر500ملین ڈالر خرچ کئے ہیں اور ایک سڑک کے ذریعے اسے افغانستان سے بھی ملادیا ہے جس کے ذریعے بھارت اپنی تجارت کر رہا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ چاہ بہار کے ذریعے ہمارے گوادر پورٹ اور سی پیک کو ناکام بنایا جائے۔
بھارت تیل اور گیس کے بھی کئی منصوبوں پر ایران میں کام کر رہا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ امریکی پابندیوں کے باوجود بھارت اپنی تیل کی ضروریات ایران سے پوری کر رہا ہے۔ اس لئے بھارت اور ایران کے بڑے اچھے تعلقات ہیں جبکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں وہ گرمجوشی نہیں۔ اسی طرح افغانستان میں بھارت اب تک دو ارب ڈالر سے زیادہ کے منصوبے مکمل کر چکا ہے۔بہت سے منصوبوں پر مزید کام بھی جاری ہے۔ ”را“ نے وہاں اپنے اڈے قائم کر رکھے ہیں جہاں سے وہ افغان سیکرٹ سروس کے ساتھ ملکر پاکستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے۔ لہٰذا بھارت دوستی کی وجہ سے افغانستان آئے روز پاکستان پر مختلف الزامات لگاتا رہتا ہے اور پاکستان میں کھلی دہشتگردی بھی کراتا ہے۔ ان تین ممالک کے علاوہ ہمارا چوتھا پڑوسی چین ہے۔
چین سے ہمارے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ چین 56ارب ڈالرز کی یہاں سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے۔ اس سرمایہ کاری کا کیا نتیجہ نکلے گا یہ تو وقت ہی بتائیگا لیکن چین بھی مکمل طور پر ہم سے خوش معلوم نہیں ہوتا۔ شاید بعض معاملات میں وہ بھی ہماری مدد کرنے سے قاصر ہے جیسا کہ FATFمیں ہوا۔ یہاں ہمیں یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ بھارت چین سے اپنے تعلقات ٹھیک کرنے کی بہت زیادہ کوشش کر رہا ہے اور چین بھی حالات کی بہتری کے لئے آمادہ ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان80ارب ڈالرز کی تجارت ہو رہی ہے جسے اب دونوں ممالک100ارب ڈالرز تک لے جانے کے خواہشمند ہیں۔
لہٰذا چین کتنا بڑا دوست کیوں نہ ہو وہ ہمارے لئے بھارت سے تجارت خراب نہیں کرے گا۔ ہمارے مسائل تو اور بھی بہت سے ہیں جن پر یقینا ہماری نئی حکومت مناسب وقت پر توجہ دے گی لیکن یہ دو مسائل جن کا تعلق ہماری سا لمیت سے ہے فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن