کیا مال روڈ کو سُرخاب کے پَر لگے ہیں؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ لاہور علم و ادب کے حوالے سے جانا پہچانا جاتا ہے یہاں چھوٹے بڑے مشاعر ے باقاعدگی سے ہوا کرتے تھے، برصغیر کے تمام نامور شعرا مشاعروں میں شرکت کے لئے آیا کرتے تھے۔ وال سٹی کے باہر چاروں طرف باغات تھے جہاں شہر کے اندر رہنے والے بزرگ مختلف کھیل تاش، چوکر وغیرہ کھیلتے اور ہنسی مذاق میں وقت گزارا کرتے تھے۔ بعض خوش الحان ہیر وارث گایا کرتے تھے جو بہت ذوق شوق سے سُنی جاتی تھی۔ اکھاڑے بھی موجود تھے جہاں پہلوانی کی مشق کرتے نوجوان نظر آیا کرتے تھے۔ پہلوانی کے مقابلے زور و شور سے ہوا کرتے تھے جہاں دوسرے شہروں کے پہلوانوں سے جوڑ پڑا کرتے تھے۔ ”رستمِ زمان“ بھی اسی شہر کی دین تھے۔ آج بھی ان کا خاندان موجود ہے لیکن پہلوانی کی روایت دم توڑ چکی ہے یہ یادِ ماضی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ لاہور کا انار کلی بازار دنیا بھر میں مشہور تھا میں نے یہاں سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز کو خریداری کرتے دیکھا ہے وہ جس دُکان میں بھی گئے اس دُکان میں رکھے تمام سامان کو خرید لیتے جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اتنے سامان کا کیا کریں گے تو انہوں نے فرمایا کہ ہمارے بےشمار قبائلی سردار ہیں جنہیں تحفے تحائف دینا ہوتے ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لاہور کی ”مال روڈ کی سیر“ شہر کے تمام پڑھے لکھے لوگوں کا معمول تھا میں نے یہاں ناصر کاظمی، احمد مشتاق، انجم رومانی، صوفی تبسم، سید عابد علی عابد اور دوسرے اہلِ قلم کو سیر کرتے دیکھا ہے۔ پاک ٹی ہاﺅس ، کافی ہاﺅس اور وائی ایم سی اے علمی ادبی مرکز ہوا کرتے تھے ہر ہفتہ حلقہ اربابِ ذوق کی تقریب میں علم و ادب کے مختلف پہلوں پر غور و فکر ہوا کرتا تھا! سردار عبدالرب نشتر جو اس زمانے میں گورنر تھے ان کا معمول تھا کہ وہ روزانہ گورنر ہاﺅس کے مال روڈ پر واقع گیٹ سے نکلتے اور سیر کرتے ہوئے توپ تک جاتے اور پھر اسی طرح واپس چلے جاتے اُن سے تقریباً روزانہ ہی علیک سلیک ہوا کرتی تھی اُن کے ساتھ کوئی گارڈ وغیرہ نہیں ہوا کرتا تھا، وہ بہت ہی خلیق انسان تھے لوگ ان کا بڑا احترام کرتے تھے ۔ اُن دنوں مال روڈ سنگل روڈ ہوا کرتی تھی، خال خال پانچ سات منٹ کے بعد کوئی کار گزرتی اس پر بھی یہ پابندی تھی کہ وہ ہائی کورٹ کے سامنے سے گزرتے ہوئے ہارن نہ بجائے، موٹر سائیکلیں بہت کم تھیں زیادہ تر شہری سائیکلیں استعمال کیا کرتے تھے۔ 14 اگست کا جشنِ آزادی منانے کے لئے جب پاک فوج نے پہلی بار چیئرنگ کراس سے ناصر باغ تک پریڈ کا اہتمام کیا تو اسے دیکھنے کے لئے سارا شہر امڈ آیا ۔ اس زمانے میں ٹینکوں کا مظاہرہ ایک نئی بات تھی لیکن اس کے نتیجے میں مال روڈ ادھڑ کر رہ گئی تھی پاکستان بننے کے بعد مال روڈ سیاست کا مرکز بن گیا کوئی جشن ہو یا کسی بھی قسم کا احتجاج مال روڈ اس کا مرکز تھا اور اب بھی ہے جبکہ آئے دن کے ان جلوسوں کی وجہ سے مال روڈ کا کاروبار تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ اکثر بڑی بڑی فرمیں اپنا کاروبار سمیت کر دوسرے علاقوں میں منتقل ہوچکے ہیں۔ مال روڈ کو اعلیٰ عدلیہ نے کئی بار ریڈ زون قرار دیا لیکن وہی ڈھاک کے تین پات، مغربی پاکستان کے گورنر پنجاب امیر محمد خان نے 1965ءکی جنگ کے بعد کہا کہ لاہور بارڈر سٹی ہے۔ اس لئے یہاں ترقیاتی کاموں پر پیسہ ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لاہور شہر اب دس پندرہ لاکھ آبادی سے بڑھ کر دو کروڑ کی آبادی کا شہر بن چکا ہے۔ مال روڈ جو اب دو رویہ سڑک ہے۔ شہر کی ٹریفک پولیس کا ایک بڑا حصہ صرف مال روڈ پر ٹریفک کنٹرورل کرتا نظر آتا ہے اگر یہ پولیس نہ ہو تو مال روڈ سے گزرنا انتہائی مشکل ہو جائے اور شہر کے دوسرے حصوں کی طرح یہاں بھی ٹریفک جام رہا کرے۔ دراصل ٹریفک پولیس کا یہ اہتمام صرف اور صرف حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں اور معزز جج صاحبان کے ہائی کوٹ آنے اور جانے کی وجہ سے ہے۔ آج کل یہ دلچسپ منظر دیکھنے کو ملتا ہے کہ جب کوئی V.I.P. یا VVIP کو گزرنا ہوتا ہے تو تمام ٹریفک روک کر اس کا راستہ صاف کر دیا جاتا ہے۔ معزز جج صاحب کا یہ فرمان ہے کہ ”تاریخی عمارتوں پر لگے بورڈ ہٹا دیئے جائیں“ ایک اچھا قدم ہے لیکن تاریخی عمارتوں کے نام پر جو تاریخی عمارات نہیں ہیں ان کے بورڈ بھی اتار کر لاکھوں روپے کا نقصان کر دینا کہاں کا انصاف ہے؟ مجھے یقین ہے کہ ہائی کورٹ کے معزز جج صاحب کے حکم پر عملدرآمد میں بیوروکریسی کا غصہ شامل ہے ان کا غصّہ بھی کسی حد تک ٹھیک ہے کہ یہ بورڈ جس وقت لگے تھے اس وقت روکنا چاہیے تھے اب سال ہا سال کے بعد ان سے ناراضی چہ معنی دارد، آبادی کے دباﺅ، ہزاروں کاروں اور لاکھوں موٹر سائیکلوں کے اژدھام میں لاہور کی سڑکیں بے بس ہیں پیدل چلنا اب ناممکن ہوچکا ہے۔ ہر لمحے یہ ڈر رہتا ہے کہ کوئی حادثہ نہ ہو جائے۔ آلودگی کی وجہ سے سانس لینا دوبھر ہوچکا ہے۔ ہمارے حکمران یا کرتا دھرتا افسران اپنی ایئرکنڈیشنڈ گاڑیوں سے نکل کر حالات کا جائزہ لیں تو انہیں سمجھ آئے گا کہ شہر کا کیا حال ہوچکا ہے۔ ان ہی سڑکوں پر سیاسی کارکنوں کو آمدنی کا ذریعہ مُہیا کرنے کےلئے مصروف ترین حصے ٹھیکے پر دے دیئے گئے ہیں۔ پارکنگ کمپنی قائم کرکے کچھ لوگوں کو نوازا تو گیا ہے لیکن اس کمپنی نے کوئی ایک بھی پارکنگ پلازا قائم نہیں کیا۔ یہ بہت ہی آسان کام تھا کہ جہاں بھی کوئی اپنی موٹر سائیکل یا کار کھڑی کرے اس کو ایک پرچی دے کر رقم وصول کر لی جائے، اس طرح مال کی سروس روڈ اور بعض اہم مقامات جسے ایوان عدل یا سیشن کورٹ کے باہر سڑکیں ہیں وہاں پارکنگ کمپنی نے ٹھیکے دے دیئے ہیں آپ خود سوچئے کہ پیدل چلنے کا جب راستہ ہی نہیں ہے تو سائن بورڈ ہٹانے سے یہ مسئلہ کیسے حل ہوسکتا ہے؟ یہ تو ایسے ہی ہے کہ ماروں گھٹنہ پھوٹے آنکھ۔ اب ایک نیا فرمان جاری ہوا ہے کہ دُکانوں پر لگے بورڈ بھی مال روڈ سے اتار دیئے جائیں اور ان کی جگہ دیوار پر نام لکھوایا جائے وغیرہ جہاں تک ان نادر شاہی فرمانوں کا تعلق ہے وہ صرف انار کلی چوک سے لے کر چیئرنگ کراس تک کے کاروبار کرنے والوں پر لاگو ہیں۔ مال روڈ پر میاں میر پل کے دوسری طرف لگے بل بورڈ اور دوسرے قدآور بورڈ انتظامیہ کا منہ چڑا رہے ہوتے ہیں گویا کینٹ، ڈیفنس، گارڈن ٹاﺅن، لبرٹی اور باقی سارا شہر لاہور کا حصہ ہی نہیں ہے۔ پلاننگ منصوبہ بندی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ پاکستان میں لاہور کی مال کے علاوہ دوسرے علاقے بھی شہر ہیں۔یہ امتیازی سلوک صرف مال روڈ کے تاجروں کے ساتھ ہی کیوں؟

ای پیپر دی نیشن