عمران خان نے خطاب میں اپنی شخصیت کے نرم اور صلح جو پہلو کو اجاگر کیا

اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) اپنی تقاریر میں ملک کے داخلی موضوعات پر توجہ مرکوز رکھنے والے عمران خان نے الیکشن جیتنے کے بعد پہلے خطاب میں خارجہ پالیسی اور بطور خاص بھارت سمیت پڑوسیوں اور روائتی دوست ملکوں کے ساتھ تعلقات پر کھل کا اظہار خیال کیا۔ اپنے پہلے پالیسی بیان میں کوئی نئی ڈگر اختیار کرنے کے بجائے انہوں نے ریاست کے روایتی مﺅقف کا اعادہ کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ متوازن تعلقات، بھارت کے ساتھ بات چیت کے ذریعہ تنازعات کے حل، افغانستان میں قیام کیلئے مکمل تعاون، چین کے ساتھ تعلقات کو مزید فروغ دینے، سعودی عرب کے دیرینہ دوست ہونے کے اقرار کیا۔ ان تمام ملکوں کے دارلحکومتوں اور علاقائی و عالمی بساط کے کھلاڑیوں کو پاکستان کے متوقع وزیراعظم کے اس بیان کا انتظار تھا جس میں عمران خان نے گھن گرج والے پہلو کو الگ رکھا، اپنی شخصیت کے نرم اور صلح جو پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے واضح پیغام دیا کہ ان کی خارجہ پالیسی اعتدال پسندانہ ہو گی۔ نواز شریف جب تیسری بار وزیراعظم بنے تو اپنے اولین بیان میں انہوں نے بھی پڑوسی ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد قرار دیا تھا۔عمران خان نے پاکستان کے مغربی پڑوسی ایران کے ساتھ اچھے تعلقات کے قیام اور ایران کی تسلی کیلئے ہی مشرق وسطیٰ کے بحران میں فریق بننے کے بجائے صلح کروانے کا والے کے کردار ادا کرنے کی بات کی۔ الزام تراشی کرنے یا جنگجویانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے پاک بھارت تعلقات کا نہائت متوازن انداز میں ذکر اور بطور خاص مسئلہ کشمیر کے حل کی افادیت، عمران خان کے خطاب کا اہم ترین نکتہ تھا۔ عمران خان گزشتہ ایک ماہ سے بھارتی میڈیا کی شہ سرخیوں کا موضوع ہیں۔ خود ہی عمران خان نے ذکر کیا کہ بطور کرکٹر وہ بھارت میں خوب جانے پہچانے ہیں۔ بھارت سرکار، ماضی کے اس کرکٹر اور موجودہ کرشماتی سیاست دان کو آسانی سے نظرانداز نہیں کر سکے گی۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات، عمران خان اور امریکی حکام، دونوں کیلئے دلچسب تجربہ ہو گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کی پاکستان کے ساتھ سردمہری، کھلی بھارت نوازی، سفارتی تعلقات میں ترقی معکوس اور افغانستان کے حوالہ سے مطالبات کی طویل فہرست کا باریک بینی سے جائزہ، عمران خان کیلئے پاک امریکہ تعلقات کی تازہ ترین نوعیت کو سمجھنے کیلئے اہم ہو گا۔ پاکستان آنے والے امریکی حکام کیلئے عمران خان قطعاً ایک نئی شخصیت ہو ں گے جن کے ساتھ انہیں ماضی کے حکمرانوں کی بہ نسبت قدرے احتیاط کے ساتھ گفتگو کرنی ہو گی۔ افغانستان کے بارے میں انہوں نے بہت فراخدلانہ پیشکش کی کہ دونوں ملکوں کے درمیان کھلی سرحد ہونی چاہئے۔ یقیناً ایسا اس وقت ہی ہو سکتا ہے جب افغانستان میں مکمل امن قائم ہو، دونوں ملکوں کے درمیان حد درجہ باہمی اعتماد اور دوستانہ تعلقات ہوں۔ سردست تو پاکستان کو دہشت گردوں کی آمدورفت روکنے کیلئے افغان سرحد پر باڑ لگانی پڑی ہے۔ عمران خان کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کی صورت میں زیر تعمیر باڑ ہٹائی بھی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے دیرینہ دوست ملکوں میں سے عمران خان، کمیونسٹ پارٹی کی دعوت پر چین کے دورے کر چکے ہیں، عمرہ کی ادائیگی کیلئے حال ہی میں سعودی عرب بھی جا چکے ہیں جہاں انہیں سعودی حکومت کی طرف سے اہمیت دی گئی۔ وزیر خارجہ کے چناﺅ سے خارجہ پالیسی کے بارے میں نئی حکومت کی مزید ترجیحات سامنے آئیں گی۔
عمران/ نرم پہلو

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...