اسی طرح صاحب اسلوب دانشور بریگیڈئیر صدیق سالک شہیدکا اکلوتا صاحبزادہ اپنے کئے دھرے اور زودرنج طبیعت کی وجہ سے گھر سے اْٹھالیا گیا اس کے سارے جرنیل ‘‘تائے چاچے ‘‘حالات کی نزاکت کے پیش نظر اِدھر اْدھر ہوگئے جنرل پرویز مشرف کی ایمرجنسی پلس میں جنرل عزیز خان کے نام پر شہرت پانے والے میجر جنرل عزیز آئی ایس آئی میں اہم منصب پر موجود تھے وہ بھی ’بھتیجے‘ کو اپنے ماتحتوں کے چنگل سے چھڑانے میں ناکام ہوگئے تو یہ مجید نظامی تھے جنہوں نے اس کالم نگار کی درخواست پر کوالالمپور میں وزیراعظم نواز شریف کو مداخلت کا حکم دے کر جاں بخشی کرائی۔
نظامی صاحب موڈ میں ہوتے تو مزاح نگاری کے حیران کن مظاہرے کرتے ایک دفعہ خاصے دن ڈاکٹرز ہسپتال گذارنے کے بعد واپس آئے یہ کالم نگار حاضر ہوا تو فرمانے لگے تیرا انتظار سی اک گل کرنی اے’ عرض کی فرمائیے ‘ جنرل مشرف دا خیال اے میں ہسپتال اینے دن جنرل دے گلدستے لئی پیا رہیاں’ کیا عقل مت اے ساڈے جرنیلاں دی‘ میری جان تے بنی سی اینوں اپنے گلدستے دی فکر سی۔ وہ اپنے ساتھی مدیران کے رویوں سے بہت نالاں تھے جس کی تلخی ان کے لہجے سے جھلکتی آخری ملاقات میں اسلام آباد کے حالات کرید کرید کر پوچھتے رہے۔ خاکسار نے بتایا کہ بھارت کو پسندیدہ قوم اور کابل تک راہداری کی سہولت دینے پر فوج اور سیاسی حکومت میں پیدا ہونے والی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جا رہی ہے جناب نوا ز شریف ایسے لوگوں کے گھیرے میں پھنس چکے ہیں جو امن کی آشا کی آڑ میں پاکستان کا نظریاتی تشخص تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
خدا گواہ ہے کہ نظامی صاحب بالکل خاموش رہے، سر ہلاتے رہے ایک لفظ نہ بولے۔ مجھے نجانے کیسے خیال آیا کہ یہ شاید الوادعی ملاقات ہے عرض کی حضور اجازت دیں اور میرا سلام الوداع قبول کریں اس پر مسکراتے ہوئے کہا، ’دعا لئی تے آئیں گا ’نا‘ ۔
خداگواہ ہے کہ آخری سالوں میں وہ پیشہ وارانہ اعتبار سے شدید تنہائی کا شکار تھے انہوں نے بارہا فرمایا،اسلم کلاں رہ گیاں کس تے اعتبار کراں سمجھ نہیں آندی‘ان دنوں جسٹس (ر) فرخ آفتاب مرحوم کو ہر ملاقات کے دوران سائے کی طرح اْن کے ہمراہ پایا۔
لوگو یاد رکھنا وہ پاکستان کے لئے جئے اور تادم آخر ان کی دوستی اور دشمنی کا محور پاکستان رہا۔ پاکستان میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لئے لڑتے بھڑتے فوجی اور پارلیمانی آمروں کو للکارتے للکارتے خود رخصت ہوگئے لیکن نوائے وقت کا عالی شان ادارہ پیچھے چھوڑ گئے اور ہم ان کے روشن نقوش پر قدم بقدم آگے بڑھتے رہیں گے۔
جناب حمید نظامی نے جو پودا لگایا مجید نظامی نے اس کو تناور درخت بنایا۔ صحافت کے میدان میں مجید نظامی جیسا مستعد ایڈیٹر پہلے نہیں آیا اور نہ ہی آئے گا۔ جس طرح نظامی صاحب اپنے دشمنوں خصوصاً بھارت کو للکارتے ہیں، اس پر بھارت انہیں اپنا دشمن اول سمجھتا ہے۔ ایڈیٹرز کی خواہش ہوتی ہے کہ حکمرانوں سے ملا جائے مگر حکمراں مجید نظامی سے ملنے کی خواہش کرتے تھے۔ان کی باتیں ،یادیں ختم ہونے کانام نہیں لیتیں۔ میرے لئے وہ پیرومرشد تھے ہرمسئلے ،ہرمعاملے میں رہنمائی کرنے والے اس لئے جب کسی مشکل میں گرفتار ہوتاسیدھا قدم بوسی کے لئے حاضر ہوجاتا انہیں جداہوئے مدتیں بیت گئیں خداگواہ ہے انہیں اب بھی
ہر نازک موڑ پر’ پیچیدہ مرحلے پر رہنمائی کیلئے
ہمیشہ اپنے پاس، اپنے ساتھ محسوس کرتا ہوں
سیک لگے جدسیوک تائیں،ترت سنے فریاداں
جب مرید کو گرمی لگتی ہے تو مرشد فورا فریاد سنتا ہے
…………………… (ختم شد)