مجید نظامی آمریت کی ہر آندھی کے سامنے ڈٹے رہے، قائداعظم، علامہ اقبال کے سچے پیروکار تھے: شہباز شریف

Jul 27, 2020

لاہور (نیوز رپورٹر) مجید نظامی صحافت کی دنیا کے ایک عظیم مفکرومدبر، نظریۂ پاکستان کے پرجوش محافظ ، ایک محب وطن پاکستانی تھے۔ ان کی سوچ کا مرکزومحور اسلام اور پاکستان تھا۔ وہ ایک ادارہ ساز شخصیت تھے اور انہوں نے کبھی قلم کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دی۔ اپنے بڑے بھائی حمید نظامی کی طرح مجید نظامی نے بھی زندگی بھر جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ مجید نظامی جمہوریت کے بہت بڑے داعی اور حامی تھے اور انہوں نے ایک آمر کے مقابلے میں مادرملتؒ کا ساتھ دیا تھا۔ تحریک پاکستان میں خدمات کے اعتراف میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت لیاقت علی خان نے انہیں مجاہد پاکستان کی سند اور تلوار عطا کی تھی۔ مجید نظامی کشمیریوں کے حق خودارادیت کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔ قائداعظمؒ، علامہ محمد اقبالؒ اور مادرملتؒ کے افکارونظریات کی ترویج میں مسلسل کوشاں رہے۔ موجودہ حالات میں مجید نظامی جیسی شخصیت کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ مجید نظامی اپنے افکارونظریات کی بدولت ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن ‘ آبروئے صحافت ‘ رہبرپاکستان اور سابق چیئرمین نظریۂ پاکستان ٹرسٹ مجید نظامی کی چھٹی برسی کے موقع پرمنعقدہ خصوصی آن لائن نشست کے پہلے سیشن کے دوران کیا۔ اس نشست کا اہتمام نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا تھا۔ پروگرام کے آغاز پر قاری عبدالماجد نور نے تلاوت کلام پاک جبکہ معروف نعت خواں الحاج حافظ مرغوب احمد ہمدانی نے بارگاہ رسالت مآبؐ میں ہدیۂ عقیدت پیش کیا۔ نشست کی نظامت کے فرائض نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے انجام دیے۔ تحریک پاکستان کے مخلص کارکن ‘ سابق صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان و چیئرمین نظریۂ پاکستان ٹرسٹ محمد رفیق تارڑ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ مجید نظامی کی قومی ، ملی و صحافتی خدمات کا احاطہ ممکن نہیں ہے۔ وہ ایک ادارہ ساز شخصیت تھے ۔ انہوں نے قلم کے تقدس پر کبھی آنچ نہیں آنے دی اور ہر جابر سلطان کے روبرو بے دھڑک کلمۂ حق کہتے رہے۔ مجید نظامی کی عظمتِ کردار ہم سب کیلئے مشعل راہ ہے۔ انشاء اللہ! ان کے نقوش قدم پر گامزن رہ کر ہم بہت جلد قیامِ پاکستان کے حقیقی مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مجید نظامی کا طرۂ امتیاز ہمیشہ حق کی علمبرداری رہااوروہ سچ بات کے اظہار سے بالکل نہیں ڈرتے تھے یعنی’’ سچ بات کے اظہار سے ڈرتے نہیں غازی ، زندہ ہی رہا کرتے ہیں مرتے نہیں غازی‘‘۔ مجھے بے حد خوشی ہے کہ ان کے بعد انکی جانشیں محترمہ رمیزہ مجید نظامی کی قیادت میں ادارہ نوائے وقت پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی پاسبانی کا فریضہ پوری تندہی سے ادا کررہا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمد شہباز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ دنیائے صحافت کی ایک عظیم شخصیت جناب مجید نظامی آمریت کی ہر آندھی کے سامنے ڈٹے رہے اور نظریۂ اصول اور صحافتی اقدار پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔تحریک پاکستان کا یہ درویش ، حضرت قائداعظمؒ اور حضرت علامہ اقبالؒ کا سچا پیروکار تھا۔ کئی طوفان آئے لیکن وہ نظریۂ پاکستان پر مضبوطی سے قائم رہے۔ بوسنیا، فلسطین ، کشمیر ہو یا پھر بنگلہ دیش میں محصور پاکستانی ، امت کا احساس اور غم ان کے سینے میں دل کی طرح موجود تھا۔آزاد حکو مت، ریاست جموں وکشمیر کا جناب مجید نظامی کو مجاہد کشمیر کا خطاب کشمیریوں اور کشمیر کاز کے ساتھ ان کی خدمات کا واضح اعتراف ہے۔پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے تاریخی موقع پر جناب مجید نظامی کا کردار ناقابل فراموش ہے اور تاریخ اسے ہمیشہ سنہرے حروف میں یاد رکھے گی۔ ان کا عظیم ورثہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نوجوان نسل کی نظریاتی تربیت گاہ میں ڈھل چکا ہے اور آج ایک فعال کردار ادا کر رہا ہے۔نوائے وقت گروپ، نظریۂ پاکستان کا پاسبان ، نگہبان اور پاسدار ہے۔یہ ادارہ جناب مجید نظامی کے مشن کو آگے بڑھا رہا ہے اور انشاء اللہ یہ آگے بڑھتا رہے گا۔جناب مجید نظامی کی 27رمضان المبارک کو رحلت ایک نشانی ہے کہ اللہ کریم ان سے راضی ہے۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے عظیم بزرگوں کے راستے پر چلنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم اس خداداد مملکت پاکستان کو عظیم تر بنائیں۔تحریک پاکستان کے کارکن اور سابق وفاقی وزیر خزانہ سرتاج عزیز نے کہا کہ آج ہم صحافت کی دنیا کے ایک عظیم مفکر، نظریۂ پاکستان کے پرجوش محافظ، ایک محب وطن پاکستانی مجید نظامی کی چھٹی برسی منا رہے ہیں۔مجید نظامی نے 26برس کی عمر میں صحافت کے میدان میں قدم رکھا جب 1954ء میں ان کے بھائی حمید نظامی نے انہیں لندن تعلیم کیلئے بھیجا اور وہاں سے انہوں نے مکتوب لندن کا اجراء کیا اور خصوصی رپورٹس یہاں بھیجتے رہے۔ آٹھ سال بعد 1962ء میں حمید نظامی46برس کی عمر میں انتقال کر گئے تو انہوں نے واپس آکر ذمہ داری سنبھالی اور50برس تک مدیر اعلیٰ رہے اور یہ ایک عظیم ریکارڈ ہے۔اس دوران نوائے وقت نے بہت ترقی کی ، دی نیشن کا اجراء ہوا،وقت ٹی وی اور کئی رسالے قائم ہوئے۔انہوں نے صحافت کی دنیا میں ایسے معیار اور اصول قائم کیے کہ وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔نظریۂ پاکستان کا تحفظ ان کی زندگی کا اہم حصہ تھا۔ وہ ایک ادارہ ساز شخصیت تھے۔ انہوں نے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ، تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ، ایوان اقبال ، ایوان قائداعظمؒ جیسے ادارے بنائے۔میری مجید نظامی سے دوستی 1944ء میں اسلامیہ کالج سے شروع ہوئی ۔دوستی کا یہ رشتہ 70برس تک قائم رہااور یہ رفاقت آخر دم تک برقرار رہی۔چیئرمین سینیٹ سٹینڈنگ کمیٹی برائے امور خارجہ سینیٹر مشاہد حسین سید نے اپنے خطاب میں کہا کہ مجید نظامی کی چھٹی برسی کے موقع پر ان کے کروڑوں چاہنے والے انہیںبہت یاد کر رہے ہیں۔ان کی خدمات کا کوئی مقابلہ نہیں اور نہ اس کی کوئی مثال ہے۔انہوں نے پچاس برس سے زائد عرصہ تک نوائے وقت کو چلایا ۔ پاکستانیت ان کے دل ودماغ اور روح کا حصہ تھی۔قائداعظمؒ ، علامہ محمد اقبالؒ، پاکستانی مفادات ان کو ہر دم عزیز تھے۔ وہ اپنے سلوگن ’’ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا بہترین جہاد ہے‘‘پر پورا اترے۔ مجید نظامی کے بڑے بھائی حمید نظامی اور میرے والد کرنل (ر) امجد حسین سید کی بڑی دوستی تھی۔ مجید نظامی نے حمید نظامی کی جرات وبہادری اور سچ بولنے کے ورثہ کو آگے بڑھایا۔ پاکستان کے مفادات کا انہوں نے ہمیشہ تحفظ کیا۔نظریۂ پاکستان ان کے ایمان کا حصہ تھا۔ تحریک پاکستان کی فلاح وبہبود کیلئے انہوں نے بڑا کام کیا اور انہیں گولڈ میڈل دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کا سب سے بڑا ورثہ پاکستانیت، قائداعظمؒ، علامہ اقبالؒ اور مادرملتؒ ان کی سوچ کو آگے لیکر چلنا ہے۔ پاکستان بنانے والوں کا وژن اور مشن ہی مجید نظامی کا وژن اور مشن تھا اور ہمیں بھی اسی پر چلتے ہوئے پاکستان کو عظیم سے عظیم تر ملک بناناہے۔چیئرمین سینیٹ سٹینڈنگ کمیٹی برائے دفاعی امور سینیٹر ولید اقبال نے اپنے خطاب میں کہا کہ مجید نظامی مرحوم اور میرے والد مرحوم ڈاکٹر جاوید اقبال کی گہری دوستی تھی اور مجید نظامی صاحب ہمارے گھر بھی آیا کرتے تھے۔ میرے والد نے جب بوجہ ضعیف العمری نظریۂ پاکستان ٹرسٹ سے ریٹائرمنٹ لی تو 2009ء کو میں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے بورڈ آف گورنرز کا رکن بنا اور اس وقت سے مجید نظامی کی وفات تک ان سے کئی ملاقاتیں رہیں۔ صحافت کے میدان میں گرانقدر خدمات کے اعتراف میں انہیں آبروئے صحافت کا لقب دیا گیا۔انہوں نے ہر جبر کا بڑی پامردی سے مقابلہ کیا۔ایک آمر کے مقابلے میں انہوں نے مادرملتؒ کا ساتھ دیا۔وہ محب وطن پاکستانی تھے۔پاکستان اور بانیان پاکستان کے خلاف وہ ایک لفظ سننا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ ولید اقبال نے مجید نظامی کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کرتے متعدد واقعات بھی سنائے۔سجادہ نشین آستانہ عالیہ علی پور سیداں پیر سید منور حسین شاہ جماعتی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مجید نظامی کی دینی خدمات ہمیشہ روشن اور یاد رہیں گی ۔ دنیا ا ن کی قومی وملی بالخصوص صحافتی خدمات سے مستفید ہوتی رہے گی۔ مجید نظامی نے تحریک نظام مصطفیؐ ، تحریک عقیدۂ ختم نبوت اور تحریک ناموس رسالتؐ میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ ان کی صاحبزادی رمیزہ مجید نظامی بھی ان کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے صحافتی خدمات انجام دے رہی ہیں۔صدر نظریۂ پاکستان فورم برطانیہ ملک غلام ربانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مجاہد پاکستان مجید نظامی ہماری قومی و صحافتی تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔انہوں نے اپنے قلم سے ہمیشہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی پاسبانی کا کام لیا۔ان کی دوستی اور دشمنی کا پیمانہ صرف پاکستان تھا۔جو لوگ پاکستان اور اس کے اساسی نظریے سے محبت کرتے وہ ان کے دوست تھے۔ نظریۂ پاکستان کی مخالفت کرنیوالوں کو اپنا دشمن تصور کرتے تھے۔مجھے اس امر پر فخر ہے کہ میرا شمار ان کے قریبی رفقاء میں ہوتا تھا۔سیکرٹری نظریۂ پاکستان فورم اسلام آباد ظفر بختاوری نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کی 73سالہ تاریخ میں مجید نظامی انتہائی ممتاز مقام رکھتے ہیں۔قیام پاکستان کے بعد پرائیویٹ سیکٹر کے اندر جن لوگوں نے پاکستان کی آن، شان اور وقار اور احترام کیلئے گرانقدر خدمات سر انجام دی ہیں ، ان اصحاب کی فہرست میں مجید نظامی کا نام سرفہرست ہے۔مجید نظامی ایک صحافی ہی نہیں تھے بلکہ نظریۂ پاکستان کے علمبردار تھے۔وہ پاکستان کو قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کا پاکستان دیکھنے کے خواہشمند تھے یعنی ایسا پاکستان جس کا خواب قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ نے دیکھا تھا کہ جہاں مثالی اسلامی معاشرہ قائم ہو، خوشحالی ہو، انصاف ہو،جو کشمیر کو آزاد کروا سکے اور جہاں جمہوری روایات کو آگے بڑھایا جا سکے۔ تحریک آزادی ٔ کشمیر کی حمایت میں انہوں نے جس قدر توانا آواز بلند کی شاید کسی اور پاکستانی شخصیت نے ایسا کیا ہو۔ممتاز سیاسی و سماجی رہنما بیگم مہناز رفیع نے اپنے خطاب میں کہا کہ1962ء میں اپنے بڑے بھائی حمید نظامی کے انتقال کے بعد روزنامہ نوائے وقت کی باگ ڈورآپ نے سنبھالی اور اسے صحیح معنوں میں پاکستانی قوم کی آرزوئوںا ور امنگوں کا ترجمان بنایا۔آپ اس ملک کو قائداعظمؒ ، علامہ محمد اقبالؒ، مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ اور تحریک پاکستان کے لاکھوں شہداء کی امانت سمجھتے تھے۔اس لئے آپ نے اپنی زندگی کو پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کیلئے وقف کر رکھا تھا۔گروپ ایگزیکٹو ایڈیٹر روزنامہ دنیا سلمان غنی نے اپنے خطاب میں کہا کہ غیر معمولی اہمیت اور حیثیت کے حامل افراد دنیا میں اپنے خیالات، نظریات اور جدوجہد کے حوالے سے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں ۔مجید نظامی غیر معمولی اہمیت و حیثیت کے حامل صحافتی قائد تھے ۔ ان کا سب سے بڑا وصف یہ تھا کہ وہ اپنے خیالات، نظریات اور احساسات کے حوالے سے یکسو تھے۔ نظریۂ پاکستان کی بنیاد پر پاکستان معرض وجود میں آیا۔مجید نظامی نے اپنی جدوجہد کا محور بھی نظریۂ پاکستان کو بنایا۔وہ آخری سانس تک نظریۂ پاکستان کی ترویج کیلئے سرگرم رہے۔وہ نئی نسل کو اس سے روشناس کروانا چاہتے تھے۔ نظریۂ پاکستان کے حوالے سے کراچی سے لیکر خیبر تک ہونیوالی تقریبات کا محور مجید نظامی تھے۔ پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ انکی کمٹمنٹ تھی۔وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان جمہوری جدوجہد کے ذریعے وجود میں آیا اور اسی بنیاد پر ہی اقتصادی، سیاسی اور عدالتی استحکام قائم ہو گااور اس کیلئے وہ ہر دم جدوجہد کرتے نظر آتے تھے۔ مجید نظامی ایک سوچ کا نام تھا، جدوجہد کا استعارہ تھا۔ ہر ڈکٹیٹر کا بہادری سے مقابلہ کیا اور جمہوریت کا علم بلند کیا۔آج کے حالات میں مجید نظامی کی بڑی سخت ضرورت تھی۔ تحریک آزادیٔ کشمیر کیلئے انہوں نے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ جب تک کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بنتا پاکستان نامکمل ہے۔مجید نظامی ہندو ذہنیت سے پوری طرح آگاہ تھے اور کہتے یہ کبھی مسلمانوں اور پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتے ہیں۔ ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی سوچ اور اپروچ پاکستانی بنائیں۔سابق مشیر وزیراعلیٰ پنجاب ومعروف کالم نگار محمد اکرم چودھری نے اپنے خطاب میں کہا کہ 1928ء سے2014ء تک مجید نظامی کی زندگی کی کتاب کو آپ ایک بار پڑھیں یا بار بار پڑھیں ہر دفعہ آپ کو ایک نئی شخصیت سے آشکار ہونے کا موقع ملتا ہے۔میرا مجید نظامی سے رشتہ ایک استاد، قائد اور ایک ایسے شخص کا تھا جو آپ کی تربیت میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتا ہے۔میں نے ہر ملاقات میں ان سے ایک نیا سبق حاصل کیا۔ میں نے ایک تقریب میں ان سے پوچھا کہ کیا قوم کی تربیت کا کوئی ایسا طریقہ ہو سکتا ہے جسے ایک نظام سے وضع کر دیا جائے؟قوم کی تربیت بنیادی طورپرآپ کے عمل کو دیکھ کر شروع ہوتی ہے، بدقسمتی سے پاکستان کے سیاستدان وہ کردار ادا نہیں کر سکے جسے لوگ آئندہ کیلئے فالو کر سکیں،اگر اس ملک کو آگے بڑھنا ہے تو ہمارے سیاستدانوں کو تربیت کا کوئی ایسا ادارہ قائم کرنا چاہئے کہ جب ایک کونسلر سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کرتا ہے تو اسے ایم پی اے، ایم این اے، وزیر ، مشیریا ملک کا وزیراعظم بننے تک ان رموز مملکت سے بخوبی آگاہ ہونا چاہئے، لیکن ہمارے ہاں اس کا فقدان ہے۔صدر پاکستان یونین آف جرنلسٹس نواز رضا نے اپنے خطاب میں کہا کہ مجید نظامی کو ہم سے بچھڑے چھ برس ہو چکے ہیں ۔مجید نظامی کا شمار پاکستان کے ان اخبار نویسوں میں ہوتا ہے جو قطب مینار کی حیثیت رکھتے ہیں۔پاکستانی صحافیوں کیلئے ان کی زندگی مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔انہوں نے ہمیشہ اسلام اور نظریۂ پاکستان کی بات کی۔اسلام اور پاکستان سے محبت کرنیوالوں سے وہ بھی محبت کرتے تھے۔مجید نظامی نظریاتی صحافی تھے اور عمر بھر ایک نظریہ کی آبیاری کی۔مجید نظامی نے ہمیشہ حق و صداقت کا عَلم بلند کیا اور حکمرانوں کے سامنے بھی بے باکانہ انداز میں گفتگو کی۔آج کے ملکی حالات میں اہل پاکستان کو مجید نظامی کی یاد بڑی شدت سے ستا رہی ہے۔انہوں نے ہمیشہ جمہوریت کی بات کی ۔انہوں نے ایوب خان، یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، پرویز مشرف ہر حکمران کے سامنے حق بات کہی۔انہوں نے اپنی زندگی اسلام، پاکستان اور کشمیر کیلئے وقف کر رکھی تھی۔وہ کشمیریوں کو حق خودارادیت کا حق دلوانے کیلئے کوششیں کرتے رہے۔ ’’کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘تحریک کی بھرپور حمایت کی۔ ہم مجید نظامی کی چھوڑی اقدار ، روایات اور مشن کو جاری رکھیں۔ سجادہ نشین آستانہ عالیہ شرقپور شریف صاحبزادہ میاں ولید احمد شرقپوری نے اپنے خطاب میں کہا کہ مجید نظامی ایک سچے اور کھرے پاکستانی ، پکے مسلمان اور نبی کریم ؐ کے عاشق تھے۔پاکستان کی تعمیر وترقی میں آپ نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔آپ نے جابر حکمرانوں کے سامنے بھی کلمہ حق بلند کیا۔نظریۂ پاکستان جو دراصل نظریہ اسلام ہے اس کی ترویج واشاعت کیلئے آپ نے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی۔آپ بلندہمت انسان تھے اور مشکل حالات میں بھی آپ کبھی نہیں گھبرائے۔مجید نظامی کی ملکی وعالمی سیاست پر گہری نظر تھی ۔ ملکی مفاد کیخلاف کوئی بات سننا گوارا نہیں کرتے تھے۔آپ نے ہمیشہ سچ کا علم بلند کیا۔تحریک پاکستان کے گولڈ میڈلسٹ کارکن کرنل (ر) محمد سلیم ملک نے اپنے خطاب میں کہا کہ تحریک پاکستان کے کارکنان جناب مجید نظامی اور غلام حیدر وائیں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان کی عمارت بنا کر تحریک پاکستان کا نام زندہ رکھا اور تحریک پاکستان کے کارکنوں کا اعتراف خدمت کیا یہاں سرگرمیوں کو فروغ دیا۔ان سرگرمیوں کی بدولت تحریک پاکستان کا نام اور دوقومی نظریہ زندہ ہے۔ کنوینر مادرملتؒ سنٹر پروفیسر ڈاکٹر پروین خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ مجید نظامیؒ چلتا پھرتا پاکستان تھے۔ان کی سوچ کا مرکز ومحور پاکستان اور پاکستانیت تھا۔ وہ اصولی صحافت کے علمبردار تھے اور اصولوں پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ مجید نظامیؒ سچے عاشق رسولؐ تھے۔وہ داعیٔ کلمہ حق تھے۔ پاکستان اور نظریۂ پاکستان کے پاسبان، صاف گو اور محب وطن انسان تھے۔ مجید نظامیؒ نے بھر پور زندگی گزاری۔ ایسی شخصیات مر کر بھی زندہ رہتی ہیں۔بیگم صفیہ اسحاق نے اپنے خطاب میں کہا کہ مجید نظامی وضعداری کا منفرد حوالہ اور عزم وہمت کا ہمالیہ تھے۔ ان کی ناراضگی میں ہمدردی کی خوشبو نمایاں رہتی تھی۔سیکرٹری نظریۂ پاکستان ٹرسٹ شاہد رشید نے کہا کہ مجید نظامی مرحوم آج بھی اپنے افکارونظریات کی بدولت ہمارے دلوں میں زندہ ہیں ۔ وہ بہت بڑے عاشق رسولؐ تھے ۔ مجید نظامی اصول پسند انسان تھے اور انہوں نے اصولوں پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ہم اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ مجید نظامی کے مشن کو جاری و ساری رکھیں گے ۔ آن لائن نشست سے آرگنائزر نظریۂ پاکستان فورم کوئٹہ راز محمد لونی ، سیکرٹری نظریۂ پاکستان فورم شیخوپورہ شفیق مغل، سیکرٹری نظریۂ پاکستان فورم حافظ آباد پروفیسر محمد اکرم چشتی، صدر نظریۂ پاکستان فورم کوٹلی(آزاد کشمیر) پروفیسر محمد عبداللہ، صدر نظریۂ پاکستان فورم فیصل آباد میاں عبدالوحید نے بھی خطاب کیا اور مجید نظامی کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔علاوہ ازیں ایوان کارکنان تحریک پاکستان ، لاہور میں مجید نظامی کی روح کے ایصال ثواب کیلئے محفل قرآن خوانی کا انعقاد کیا گیا۔ محفل کے بعد حافظ عثمان احمد نے ختم پڑھا اور مولانا محمد شفیع جوش نے مجید نظامی کے ایصال ثواب کیلئے دعا کروائی۔قبل ازیں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ ،تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ اور تحریک تکمیل پاکستان کے عہدیداران وکارکنان نے میانی صاحب قبرستان میں مجید نظامی کے مزار پر حاضری دی۔ انہوں نے مزار پر پھول چڑھائے اور مجید نظامی کی روح کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کی۔ اس موقع پر سیکرٹری نظریۂ پاکستان ٹرسٹ شاہد رشید، مزدور رہنما خورشید احمد اورقیصر سلطان سمیت مجید نظامی سے اظہار عقیدت کیلئے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد موجود تھے۔ مولانا محمد شفیع جوش نے مجید نظامی کی روح کے ایصال ثواب اور بلندیٔ درجات کیلئے دعا کروائی۔

مزیدخبریں