ابن صفی سے ہمارا رشتہ مصنف اور قاری والا ہی تھالیکن اب۔۔۔۔ ٹھہریئے پہلے یہ بتادیں یہ رشتہ کب اور کیسے قائم ہوا۔یہ اسکول کے زمانے کی بات ہے شاید ۱۹۵۷ یا ۱۹۵۸ کی بات ہے۔ ہم اپنے ماموں کے گھر گئے ہوئے تھے۔ا س زمانے میں ہمیں ناول وغیرہ پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ بس اسکول لائبریری سے انگریزی کی’’ اسٹوری بکس‘‘ ملتی تھیں۔ان میں سے ہمیں اینڈ بلائیٹن (Enid Blyton) ایسی بھائیں کہ پھر عرصے تک کسی اور مصنف کو ہاتھ نہیں لگایا۔ماموں کے گھر کوئی مصروفیت نہ تھی ۔ اکتا ہٹ کا شکار ہو کر وہاں موجود کتابوں کی طرف دیکھنا پڑا۔ایک کتاب ’’ نیلے پرندے‘‘ نے ہماری توجہ مبذول کرا لی تو لے کر بیٹھ گئے۔اردو میں پڑھنے کی رفتار بہت کم تھی اس لیئے تقریباً دو گھنٹوں میں پڑھی۔کتاب ایسی بھائی کہ پھر ابن صفی کے اسیر ہو گئے۔ دوسری کتاب ’’ پاگل خانے کا قیدی‘‘ تھی ۔پھر چل سو چل۔ایک آنہ روز والی لائبریری سے تعارف ہوا اور روزانہ ہی دوپہر کسی نہ کسی کتاب کی نذر ہونے لگی۔ پھر چار آنے روز کے ساتھ ساتھ ہر پندرہویں دن نئی کتاب بھی خریدنے لگے۔ایک دن فٹ پاتھ پر پرانی کتابوں میں ابن صفی کی کتابیں دیکھیں تو مزا آگیا‘جتنی ہاتھ لگیںخرید لائے۔اس زمانے میں توجہ صرف ابن صفی کے نام پر رہی کوئی تجسس نہ تھا کہ مصنف کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کرتے۔ایک دن ’’ہیروں کا فریب‘‘ خرید لائے تو معلوم ہوا کہ نقلی ہے پھر اصلی کتاب ملنے پرآگاہی ہوئی کہ کئی لوگ ابن صفی سے ملتا جلتا نام استعمال کر رہے ہیں۔زیر ، زبر، پیش کے ساتھ نقطوں کا استعمال بھی دھوکہ دہی میں اتنا ہوا کہ ابن صفی کو کتاب کے لیئے ٹریڈ مارک(TradeMark) بنوا نا پڑا جو شاید دنیائے ادب میں ایک منفرد قدم تھا ۔ یہ کتابوں کو چربہ سازی سے بچانے کی ابتدا تھی جو بالآخر ا بن صفی صاحب کی تصویر تک پہنچ گئی لیکن چربہ سازی کو نہ روک سکی اور بازار میں بیسیوں ابن صفی، بن صفی، این صفی، ابّن صفی اور ابن صیفی کی بھر مار اتنی ہو گئی کہ سنا ہے یہ ابن صفی صاحب کی بیماری کا سبب بن گئی اور قارئین تقریباً تین سال تک نئی کتابوں سے محروم رہے ( تین برسوں میںہر ماہ دو کتاب کے حساب سے ہم تقریباً۷۲ کتابوں سے محروم کر دیئے گئے)۔اس تعارف کے بعد اپنے ابتدائی کلمات کی طرف چلتے ہیںکہ ابن صفی سے ہمارا رشتہ مصنف اور قاری والا ہی تھالیکن اب عقیدت والا ہے ۔عقیدت کے رشتے سے پہلے استاد اور شاگر کا رشتہ بھی ہوگیا۔عقیدت مندی اور شاگردی والے دونوں رشتے ابن صفی صاحب کی بعد از وفات قائم ہوئے۔قاری والا رشتہ ان کی زندگی میں ہی قائم ہو گیا تھا لیکن بہت مضبوط۔ مطلب یہ کہ قاری تو کسی ایک کتاب کے پڑھنے سے بھی ہو سکتا ہے لیکن یہاں تو ان کی تمام تصانیف کے ایسے قاری تھے کہ ہر کتاب کم از دس بار پڑھی( کچھ کتابیں ایسی بھی جو محاورتاً نہیں حقیقتاً کہہ سکتے ہیں بیسیوںبار پڑھی ہیں) لیکن اس معاملے میں بھی ہم نمبر دو ہو گئے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک سندھی بولنے والے ڈاکٹر سے دوران گفتگو معلوم ہوا کہ انہوں نے اردو ابن صفی کی وجہ سے سیکھی اور ہر کتاب اتنی بار پڑھی کہ کسی کتاب سے کوئی جملہ کہیں وہ کتاب کا نام بتا دینگے‘ ہم نے آزمایا اور درست پایا۔اس دن یہ بھی علم ہوا کہ ابن صفی نے یہ بالکل درست لکھا تھا کہ مجھے اس وقت حقیقی خوشی ہوتی ہے جب کسی بنگالی بھائی کا خط ملتاہے کہ میں نے اردو آپ کی کتاب کی وجہ سے سیکھی ۔استاد اور شاگردی کا رشتہ اس وقت قائم ہوا جب ہم نے ریٹائرمنٹ کے بعد لکھنے لکھانے کا شغل اپنا لیا۔اس وقت محسوس ہوا کہ ہمارے قلم میں روانی(یہ خود نمائی نہیں) ابن صفی صاحب کی مرہون منت ہے کیونکہ کالم وغیرہ لکھتے ہوئے عموماً ابن صفی سے رہنمائی مل جاتی ہے۔رفتہ رفتہ یہ رشتہ عقیدت میں بدل گیا جس کا احساس اس وقت ہوا جب جناب احمد صفی صاحب ( فرزند ابن صفی) سے فیس بک پر واقفیت ہوئی۔اس وقت نہیں معلوم تھا کہ احمد بھائی فرزند ابن صفی ہیں۔ایک دوست کی بدولت یہ علم ہوا تو ہمیں ایک خاص کشش کا احساس ہو اور اتفاق سے ادھر سے بھی کچھ ایسی ہی پذیرائی ہوئی اور احمد بھائی نے ہمیں کیفی بھائی کے درجے پر فائز کردیا۔اس ہی دوران خرم شفیق سے بھی غائبانہ تعارف ہوا جنہوں نے ابن صفی کی تصانیف کے اقتباسات پر مبنی ’’ سائیکو مینشن‘‘ ہمیں ارسال کی۔اس کے علاوہ انہوںنے ’’رانا پیلس‘‘ بھی تحریر کی لیکن وہ ہمیںاب تک نہ مل سکی۔ہم نے ایک دو کالموں میں ابن صفی کے ریفرنس بھی دیئے اور انہیں کئی مضامین میں کوٹ (Quote) بھی کیا لیکن تشفی نہ ہوئی یا یہ کہیئے ’’ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘ اس لیئے دو ایک مضامین ابن صفی پر لکھے جو روزنامہ ’ نوائے وقت‘‘ میں شائع ہوئے۔ ایک مضمون ابن صفی پر لکھی گئی ’’ ابن صفی کون؟‘‘ میں بھی شامل ہوا۔ خرم شفیق کی کاوشوں سے ایک تحریک ہوئی اور ہم نے ایک مضمون میں قارئین کو مشورہ بھی دیا کہ ابن صفی پر مقالہ لکھنے کی کافی گنجائش ہے۔ان کی منظر نگاری پر لکھا جاسکتا ہے۔وہ منظر نگاری مختصر الفاظ میں بھی اتنی پُر اثر انداز میں کرتے ہیں کہ کئی کئی صفحات پر مشتمل منظر نگاریاںماند پڑ جاتی ہے۔یہ ابن صفی کا خاصہ ہے کہ بڑے سے بڑے مسئلے کو سو /ڈیڑھ سو صفحات میں نمٹادیتے ہیں جس کے لیئے کئی ادیب ہزار پانچ سو سے کم صفحات نہیںاستعمال کرتے ۔دوسرا موضوع ابن صفی کے منفی کردار بھی بن سکتا ہے ۔ابن صفی نے جہاں فریدی، حمید یاعمران جیسے مرکزی کردار تخلیق کیئے وہیں ان تینوں مرکزی کرداروں کے حوالے سے ثانوی کردار بھی تخلیق کیئے۔۔ مثلاً۔جاسوسی دنیا میں قاسم، شہناز، کنول۔ملازم نصیر،ڈ آئی جی صاحب یا عمران سیریز میں جوزف، صفدر، جولیانا، کیپٹن فیاض وغیرہ۔۔ یہ فقط چند ہیں ورنہ یہ بھی اتنے ہیں کہ ان کاتعارف تو کُجا، صرف نام لکھنے کے لیئے کئی صفحات درکار ہونگے۔یہ سب ہی ذہن سے چپک کر رہ جانے والے کردار ہیں لیکن ان کے منفی کرداروں کا کیا کہناجن کے لیئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ریسرچ کرنے والوں کے لیئے بہترین مواد بن سکتے ہیںہم نے پہلے ہی اعتراف کر لیا ہے کہ ہم سے اب تحقیقی کام نہیں ہوتا اس لیئے یہ چاہتے ہیں یہ کام کوئی اور اپنے ذمے لے لے۔یہ ہی وجہ ہے کہ منفی کرداروں کا سرسری جائزہ لے تو رہے ہیں لیکن یقین نہیں کہ حق اد ہو جائے۔ بہرحال ایسے کرداروں میں تھریسیا اور سنگ ہی تو سر فہرست ہیں لیکن فنچ یا ڈاکٹر ڈریڈ بھی کم نہیں۔لیونارڈ اور جیرالڈ شاستری کا بھی تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر ٹسڈل کی بے چارگی ہو یا ڈاکٹر نارنگ کی سفاکیت، بہترین موضوع بن سکتے ہیں۔ایسے منفی کردار بھی ہیں جو قابل رحم بھی ہیں جیسے لاش کا بلاوہ کے دو کرداریا سائے کی لاش کی مجرمہ لیڈی تنویر۔۔بہر حال ایسے منفی کردار بھی صرف ابن صفی ہی تخلیق کر سکتے تھے جن سے بیک وقت ہمدردی بھی ہوتی تھی لیکن انکا انجام بھی بد تر ہی چاہا جاتا تھا۔مقالہ لکھنے والوں کو تقریباً دو سو سے زئد ایسے منفی کردار ملیں گے جن پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔مجرمانہ ذہنیت کی وجوہات بھی زیر بحث آسکتی ہیں‘ابن صفی نے کوئی خانہ خالی نہیں چھوڑاہر معاملے میں پر فیکشنسٹ ہی رہے۔ مرکزی کردار ایسے کہ قاری نے اپنے ذہن میں انکا خاکہ بنا لیا ۔اس کا منفی پہلو یہ رہا کہ ان کرداروں کو فلمانے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ہم نے ہالی ووڈ ، بالی ووڈ اور لالی ووڈکے بہترین اداکاروں کو فریدی ، حمید اور عمران کے روپ میں ڈھالنے کی کوشش کی لیکن کوئی بھی معیار پر پورا تو کیا تھوڑا بھی نہ اتر سکا۔افسوس یہ کہ اگر ان ناولوں کے مرکزی کرداروں کو کوئی اور نام دے کر فلمایا گیا تب بھی ناظرین قبول نہیں کریں گے۔یہ ناول اور کردار کچھ اس ہی طرح سے یک جان ہو گئے ہیں کہ ان ناولوں سے فریدی ، حمید یا عمران کو کو ئی اور نام دیکر دوبارہ لکھا جائے تو بھی شاید لوگ اسے بھی پسند نہ کر پائیں گے اور یہ ہی خوبی ابن صفی کو منفرد بنا تی ہے۔شاید یہ وجہ ہے کہ مصنفین عمران کے نام والے کردارپرناول لکھ کر خوب کما رہے ہیںدنیا کے بہترین مصنفین نے بھی کردار تخلیق کیئے لیکن وہ کردار انفرادیت قائم نہ رکھ سکے۔ ان کرداروں کو کئی اداکاروں نے نبھایا اور کامیابی سے۔مثال میں ہم دنیا کے مشہور ترین مصنف آئین فلیمنگ کے کردار جیمس بانڈ007 کو پیش کرتے ہیں جسے ایک سے زائد ایکٹروں پر فلمایا گیا اور ہر کردار جیمس بانڈ سے زیادہ شون کانری، راجر مور یا ٹموتھی ڈالٹن ہی رہا۔ ہر ایکٹر جیمس بانڈ کی بجائے ایکٹر ہی رہا۔ہم دعوے سے کہتے ہیں دنیا کا کوئی ایکٹر فریدی یا عمران کا رول نہیں کر سکتا۔عمران کے چہرے پر برسنے والی حماقت میں اس کی وجاہت اورمردانہ حسن کو برقرار رکھنا اور پھر وقت پڑنے پر اس طرح بدلنا کہ اس کے اپنے ساتھی جو اس کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ کانپ جاتے ہیں۔فریدی کی مردانہ وجاہت اور خوبصورت چہرے پر نیم غنودہ آنکھیں۔کوئی بھی اداکار پیش نہیںکر سکتا۔۔کوئی ایکٹر ایسا نہیں جو فریدی یا عمران کا رول کرے اور لوگ اس ایکٹر کو بھول جائیں۔ یہ ہی ابن صفی کے کرداروں کی لا فا نیت ہے۔ابن صفی نے ایک فلم دھماکہ بنائی لیکن عمران کی جگہ ظفرالملک کو دے دی۔یقین سے کہتے ہیں اگر کردار عمران ہوتا تو فلم فلاپ نہیں ہوتی لیکن مشکل تھی کہ کردار کون کرتا؟ابن صفی کا کمال ہے کردار ہی نہیں ایکسٹو کی آواز کو بھی منفرد بنا دیا۔ایکسٹو کا کوئی خاکہ نہیں صرف آواز ہے لیکن فلم میں اکیسٹو کی آواز بھی ناظرین نے قبول نہیں کی حالانکہ یہ آواز خود ابن صفی نے اپنی آواز میں پیش کی تھی۔اس سے اندازہ کیجیئے کہ ابن صفی کے ناولوں کو فلمانا کتنا مشکل ہے۔کرداروں کے نام بدل کر فلما تو سکتے ہیں۔کہانی کی وجہ سے فلم کامیاب بھی ہو سکتی ہے لیکن عمران اور فریدی کے چاہنے والوں کو اس طرح اپنی طرف نہ لا سکے گی جس طرح وہ عمران یا فریدی کے نام پر آتے۔
ابن صفی ۔۔دنیائے اردو ادب کا منفرد مصنف
Jul 27, 2020