بھار ت کے ہاتھوں سے نکلتا مقبوضہ کشمیر

Jul 27, 2020

میری کوشش رہی ہے کہ ہمارے ایماندار اور صاف گو وزیر اعظم عمران خان جو مخصوص حکومتی مشینری اور اپنی صفوں میں موجود بعض مفاد پرست عناصر کی طرف سے ملکی و قومی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دیئے جانے کے منفی طرز عمل کے باعث اپنے انتخابی وعدے پورے کرنے میں فی الوقت کامیاب دکھائی نہیں دے رہے اور اسی وجہ سے اندرون ملک سخت تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں کے حق میں جتنا کچھ بھی لکھا جا سکتا ہے لکھ کر ان کی پوزیشن واضع کی جا سکے ۔میں نے پہلے بھی اپنے متعدد کالموں میںیہ باور کرانے کی کوشش کہ ہے کہ بھلے عمران خان دو سال گذرجانے کے باوجود ابھی تک عوامی وعدے پورے کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو نہ سہی کوئی بات نہیں مگر یہ تو دیکھاجائے کہ وہ خارجی طور پر کتنے کامیابی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور مزید کتنے آگے بڑھ رہے ہیں ،اور اس کا فائدہ کس کو ہو گا ۔کیا اس کا فائد ہ انہیں یعنی عمران خان کو ہوگا ؟ اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ اُن کی قیادت میں ملک کو بھی کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں اُن کا فائدہ بھی تو آخر کار عوام کو ہی ہونا ہے، ملک ترقیافتہ ہوگا دفاعی لحاظ سے مضبوط ہوگا تو سکون و اطمنان ہو گا ہر طرف ترقی ہوگی خوشحالی ہوگی لوگ پرامن پر سکون ماحول میں کاروبار کر سکیں گے ملکی معیشت آگے بڑھے گی تو لوگ بھی آگے بڑھیں گے مگر اس سب کیلئے تھوڑا صبر اور کر لیا جائے تو صلہ ضرور ملیگا ۔اس سب کیلئے تو دیکھاجائے تو سب سے پہلے ملک کی زمینی و ساحلی اور فضائی سرحدوں کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے جس پر وزیراعظم اور ہماری عسکری قیاد ت مل کر رات دن جدوجہد کر رہی ہے ،خطے کی سیاسی و جنگی صورتحال پر بھی نظر ڈالنی چاہیے ہر اک کو۔ یہ
نہیں کہ منہ پھاڑتے ہی موجودہ سسٹم پر اول فول کہہ دیا جائے ،ملک کے چاروں اطراف ایسے خطرات منڈلا رہے ہیں جن کا اس سے پہلے کوئی تصور ہی نہیں تھا۔پہلے تو صرف ہمیں مشرقی سرحد سے دشمن کا سامنا تھا اب تو مغربی سرحد سے بھی امریکیوں اسرائیلیوں اور بھارتیوں کی صورت میں ایک نہیں دو نہیں بلکہ تین تین دشمنوں سے خطرات لاحق ہیں جبکہ چوتھے افغانستان سے بھی جو ہے تو اپنا ہی مسلمان بھائی مگر گردشِ حالات کی سختیوں نے اسے فی الوقت دشمنوں کی گود میں لا بٹھایا اور پھر شاباش ہماری پاک افواج کو جو تن تنہا ان چاروں دشمنوں سے دلیری سے لڑ رہی ہیں ۔ہمارے ایٹمی اثاثوں پر خونخوار نظریں گاڑھے یہ اژدھے کہیں کوسوں دور نہیں ،ہمارے دروازں پر بیٹھے ہیں جن کا ہمارے عوام کو بھی نوٹس لینا چاہیے جو کروڑوں نوکریوں لاکھوں گھروں کے طعنے تو دے رہے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ ہماری قیادت کو ملکی دفاع کیلئے کیا کیا چیلنجز درپیش ہیں اور وہ ان سے ناکافی وسائل کے باوجود نمٹ کیسے رہی ہے ۔ سب سے پہلے ضرورت امن و امان کی ہوتی ہے اور دیکھا جائے تو ہمارا امن و امان کا مسئلہ ،مسئلہ کشمیر سے جڑا ہے جس کی وجہ سے ہمارے ازلی دشمن بھارت سے ہماری تین جنگیں بھی ہوچکی ہیں،یہی نہیں اسی مسئلہ کو لے کر بھارت پورے پاکستان خصوصاً بلوچستان میں ہمیں کمزور کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا بلکہ نہیں دے رہا مگر خدا ئے رب و جلیل کا کرنا ایسا کہ باوجود بھارتی آئین کی دفعہ 370 ختم کر کہ نئی دفعہ 35 Aکے نفاذ کے کہ جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بھارتی ریاست کا حصہ بنانا ہے کی ان بھارتی کوششوں کے باجود مقبوضہ کشمیر بھارت کے ہاتھوں سے نکلتا دکھائی دے رہا ہے ،اس بات کی دلیل کے طور پر گذشتہ چند ہفتوں پہلے لداخ کے مسئلہ پر ہونے والی چین بھارت جھڑپوں جن میں سینکڑوں بھارتی فوجیوں کی ھلاکت بھی ہو ئی کی مثال دی جاسکتی ہے جن کے دوران چین نے دو قدم آگے بڑھ کر یہ کہہ دیا کہ لداخ کے ساتھ ساتھ اب مقبوضہ کشمیر بھی ہمارا ہے ، چین کی یہ دھمکی سن کر بھارتی وزیراعظم مودی لداخ جو بھی مقبوضہ کشمیر ہی جیسا چین اور بھارت کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے کو چین کے حوالے کرنے پر راضی ہو چکا ہے جبکہ کہ دوسری طرف عالمی زرائع کی یہ خبریں بھی گردش میں ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے چین اور پاکستان کے مابین کچھ خفیہ معاھدے بھی ہو چکے ہیںجن کی تفصیل فوری طور پر معلوم تو نہ ہو سکی مگر یہ ضرور ہے کہ یہ صورتحال پاکستان کیلئے قدرت کی طرف سے سنہری تحفہ ہے جسے حاصل کرنے کیلئے وزیراعظم عمران خان چینی قیادت کے ساتھ مل کر تیز ی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور وہ دن اب قریب ہی ہیں جن میں مظلوم نہتے کشمیری آذاد فضاؤں میں سانس لے سکیں گے بلکہ پاکستان میں بھی مستقل امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا جس کیلئے پاکستان نے بھی گذشتہ سات دیہائیوں میں ناقابل ِ برداشت سختیاں جھیلیں ہیں ۔اس تمام صورتحال کو عوام کے سامنے لانے کا مقصد یہی ہے کہ موجودہ حکومت سے گو کہ ان کے گلے شکوے بجا ہیں مگر یہ بھی ہرگز نہیں کہ عوام کی توقعات کو اہمیت نہیں دی جارہی یا اِن کے مسائل حل ہونے والے نہیں ۔۔نہیں ایسا ہر گزنہیں ہے توقعات بھی پوری ہوں گی انشااللہ اور مسائل بھی حل ہونگے بس زرا تھوڑا سے صبر مزید کرلینا چاہیے اور ہما را کہنا بھی یہی ہے کہ موجودہ سسٹم کو پانچ سال ضرور مکمل کرنے چاہیں ،ایک چھوٹے سے مکان کو بنانے میں وقت لگ جاتا ہے تو یہ تو پھر ایک پورے ملک کی از سر نو تعمیر کا ہدف ہے وقت تو لگے گا پہلے مقبوضہ کشمیر تو ہاتھ میں کرلینے دیاجائے کہ اسی سے ملک کی سلامتی اور بقاء کے علاوہ تعمیر و ترقی بھی جڑی ہوئی ہے ۔

مزیدخبریں