ادھر خلق خدا بے حال ہو چکی ۔ زبان حال سے یوںپکار رہی ہے ۔ یہ رات کی طوالت اور بے خوابی کا ہی مسئلہ نہیں، ذرا میری تقدیر کی خبر لائو ۔وہ کہاں سوئی پڑی ہے ؟مجھے آلو 80روپے کلو ملتے ہیں۔ کچھ نیک بخت زرعی زمین 20روپے مرلہ پاتے ہیں۔ مجھے نوکری سے جواب ہو چکا ہے ۔ کچھ لوگ ریٹائرمنٹ کے بعدبھی32لاکھ ماہوار کی نوکری لئے بیٹھے ہیں۔ کچھ مردوں کو تدفین کی جگہ میسر نہیں۔ اگر میسر ہے بھی تو اِتنی سی جگہ میں چین کہاں ، آرام کہاں ؟ خُو تڑپنے کی وہی اور جگہ تھوڑی سی ۔ پھر سنا ہے۔ روز جزا اک اک لحد سے ستر ستراٹھائے جائیں گے ۔ یہ شہر خموشاں کی کہانی ہے ۔ لیکن کئی نیک بخت ایسے بھی ہیں جن کیلئے پورا سالم مکمل جزیرہ ہے۔ جیو کہ جب تک جینا ہے ۔ پھر دفن بھی پورے جزیرے میں اکیلے ہی ہوجانا۔نہ کوئی اور آئے ، نہ اپنی رام کہانی سنائے ، نہ دل جلائے ۔ زندگی اللہ کا انعام ہے۔ خالق کو ناز ہے کہ میں نے اپنے بندے کو احسن تقویم بنایا۔کیا ہربندہ احسن تقویم نہیں؟ پھر یہ ملک کچھ لوگوں کے مرنے اور کچھ لوگوں کے جینے کیلئے کیوں ہے؟ کیا یہ خطہ ارضی ایک قوم کی زیست کیلئے حاصل نہیں کیا گیا تھا؟ شاعر لاہور نے ایک شعر سنایا ۔ سننے والا اک مجذوبانہ کیفیت میں اٹھا ۔ بولا۔یہ شعر چھت تلے سننے کا نہیں۔ باہرچلتے ہیں۔
؎خوب ہوگی یہ سراء دہر کی لیکن اس کا
ہم سے کیا پوچھتے ہو ہم نے ٹھہرنا کب ہے
زندگی کے مختصر،دنیا کے ناپائیدار اور صبر و قناعت ہمارے شاعروں خطیبوں کے من پسند موضوع ہیں۔ مرنے کے بعد قیامت برحق سہی لیکن یہ سب اسی دنیا میں قیامت کے مناظر دکھاتے رہتے ہیں۔یہ جیتے جی مرنے کا قصہ کہانی ہے۔حالانکہ زندگی بخشنے والے کی بخشش اور رحم کی کوئی حد ہی نہیں۔ پھر سارا زور مرنے کے بعد ہی کیوں ؟ کیا اس دنیا کو دوزخ بنانا لازم ہے ؟ یہ بھوک ، خودکشیاں ، بے گھری ، بے سروسامانی؟میرے حضورؐ نے ایک شخص کا بوسیدہ لباس اور مندا حال دیکھ کر فرمایا۔جھولی پھیلائو تاکہ بیت المال سے عطاکیاجائے ۔ کہنے لگا۔ حضورؐ ! میں خاصا حیثیت دار ہوں۔ فرمایا۔اگر اللہ نے دیا ہوتو تن بدن سے خوشحالی کا اظہار لازم ہے ۔ یہ بھی دینے والے کے شکر گزار ہونے کا اک انداز ہے ۔ کیا اسلامی تصوف زندگی سے فرار کا نام ہے ؟ شاید علامہ اقبالؒ نے یہی سوچ کر کہا تھا۔
؎یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی
زندہ رہنے کے اپنے مسائل ہیں۔ زندگی وسائل کے بغیر بسر نہیں ہوتی۔ تن پر لباس ، رہنے کو گھر ، پیٹ بھرنے کو غلہ ، پھر بچوں کی فیس ۔ اک صاحب اولاد چیخ اٹھا تھا۔ مولا! تجھے پتھر میں کیڑوں کو رزق پہنچانے کی بڑی فکر ہے ۔ میرے بچوں کی فیس کہاں ہے؟ دیکھئے اب وہ زمانہ نہیں رہا۔
؎تھے وہ بھی دن کہ خدمت استاد کے عوض
دل چاہتا تھا ہدیہ دل پیش کیجئے
بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا بس از سبق
کہتا ہے ماسٹر سے بل پیش کیجئے
پھر جب کسی بچے کو اسکول فیس کی عدم ادائیگی پر کلاس روم سے نکالا جاتا ہے تو اسے اور اس کے والدین کو یوں لگتا ہے ، جس گھڑی تیرے آستاں سے گئے ، ہم نے جانا کہ دو جہاں سے گئے ۔ پھر اس بچے کا باپ اپنی دعائوں کی نارسائی پر چیختا ہے ۔
؎اس کے بندے ہیں سو ہم دیکھتے ہیں اس کی طرف
وہ شہ چارہ گراں کس کی طرف دیکھتا ہے
کیا اللہ کے وزیر مشیر بھی عمران خان کے وزیروں مشیروں کی طرح اس کے کہنے سننے میں نہیں ؟ اب تعلیم فروشی اک تجارت ہے اور تجارت میں صرف نفع مقدم ہوتا ہے ۔ مولانا !آپ کا وعظ بڑا دلنشیں اور حو ر و قصور کے قصے بھی بڑے دلفریب ۔ اس تلخ زندگی میں یہ کچھ اور بھی شیریں لگتے ہیں۔ جھٹ سے دوسری دنیا جانے کو جی چاہتا ہے ۔ لیکن ۔۔۔ لیکن۔۔۔ فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا، ابھی نہیں دیکھا، افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند ۔ فردوس اسے کہتے ہیں جہاں بھوک نہ ہو۔ دودھ ، شہد اور شراب طہورا کی نہریں بہتی ہوں۔ باغات اور حوروں کا جھرمٹ ۔ درویش روٹی کو اللہ کا چھٹا رکن قرار دیتے ہیں۔ روٹی ، کپڑا ، مکان کا نعرہ بھٹو سے بہت پہلے قصوری درویش بلند کر چکے ہیں۔ جُلی، کُلی، گُلی۔ پاکپتن والے بابا جی فرید ؒ روٹی کو چھٹا رکن ہی نہیں اسلام کا اہم ترین رکن گردانتے ہیں۔ محسن انسانیتؐ نے دو لفظوں میں مذہب اسلام یوں بیان فرمایا۔زبان کی پاکیزگی اور اپنے رزق سے دوسروں کو حصہ دار سمجھنا ہی اسلام ہے ۔ اختر شیرانی کے بیٹے ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی نے اپنی کتاب ’’کہاں سے لائوں انہیں‘‘ میں سندھ سے ایک درویش ڈاکٹر غلام مصطفی خان (1912۔2005) کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔ یہ اللہ والے جب چاہتے اللہ کے ہاں پہنچے ہوئوں سے ہمکلام ہو جایا کرتے۔ سوال جواب ہوتے اور احوال سے آگاہی رہتی ۔ ان ڈاکٹرصاحب کا 2005ء میںوصال ہوا۔ اب زندہ ہوتے تو حیدر آباد جا کر ان سے عرض کرتا کہ پاکپتن والے بابا جی فرید ؒ سے عرض کریں ۔ان کا بہشتی دروازہ اور نوری دروازہ برحق سہی۔ اس دروازے میں سے گزرنے والوں کیلئے اگلے جہان میں امان کی بشارت ہے ۔ کوئی ایک بہشتی اورنوری دروازہ ایسا بھی عطا کیجیئو ۔ جہاں سے گزران پر یہی دوزخ نما دنیا جنت نظیر بن جائے ۔ گھر چھوٹا سہی ، ہونا توچاہئے ۔پھر میں ایکڑوں پر پھیلے بڑے گھروں کی طرف نہیں دیکھوں گا۔ شکر ادا کرونگا۔کھانا جیسا بھی ہو اچھا،بھوک اچھی نہیں۔بیروزگاری ، بے گھری اور غربت ہی اس خوشنما دنیا کو دوزخ بناتے ہیں۔
با باجی !اک بہشتی دروازہ اورچاہئے
Jul 27, 2020