آزاد کشمیر انتخابات کے بعد 

Jul 27, 2021

آزاد کشمیر اسمبلی کے گزشتہ روز الیکشن پایۂ تکمیل کو پہنچے۔آزاد کشمیر اور پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی پارٹیاں یعنی مسلم لیگ (ن) ،پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی جان ہتھیلی پر رکھ کر انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے تھیں۔ خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز شریف اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے اپنی الیکشن کمپین کے دوران پی ٹی آئی اور اسکے چیئرمین عمران خان کو ہدف بنایا ہوا تھا ۔ میرا اپنا خیال یہ ہے کہ سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے مریم اور بلاول بھٹو زرداری کواپنے اردگرد اور تھوڑا سا ماضی کی سیاست کا بھی ادراک ہونا چاہیے تھا ۔ دونوں رہنمائوں نے سیاست کو بالکل فری سٹائل کی شکل دے دی ہوئی تھی۔ اپنے مدمقابل پی ٹی آئی کے چیئرمین کو ہدف ِ تنقید بنانا آپ کا استحقاق تھا لیکن کشمیر بیچنے اور عمران خان کو نریندر مودی سے ملا دینا یہ وہ بیانیہ تھا جسے کشمیر کے عوام نے آج رد کرد یا ہے۔ پیپلزپارٹی آزاد کشمیر نے ایک سیٹ ،مسلم کانفرنس آزاد کشمیر کے سردار عتیق ایک سیٹ حاصل کر سکے جبکہ مسلم لیگ ن کو اپنی تمام تر محنت اور شورشرابے کے باوجود اقتدار والی پارٹی ہونے کے باوجود صرف 6نشستیں ملیںجب کہ پیپلزپارٹی جس کے پاس پہلے 8سیٹیں تھیں وہ ان کو گیارہ تک لے جانے میں کامیاب ہوئی جب کہ پی ٹی آئی کو 26سیٹیں مل گئی ہیں۔ اس طرح پی ٹی آئی حاصل کردہ سیٹوں کے ساتھ سادہ اکثریت سے حکومت بنانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ الیکشن سے پہلے اور اس الیکشن کے دن کئی ناخوشگوار واقعات بھی ریکارڈ کا حصہ بن چکے ہیں۔خاص طور پر مسلم لیگ ن کی گوجرانوالہ سیٹ سے امیدواراسمٰعیل گجر نے اپنا انتخابی کیمپ اکھاڑنے جانے پر تلملا کر یہ بیان داغ دیا کہ اگر مجھے الیکشن میں ہرانے کی کوشش کی گئی تو میں مدد کیلئے بھارت کو بلوا لوں گا۔ اسی طرح وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے شام کو رزلٹ آنے کے بعد یہ بیان داغ دیا کہ آزاد کشمیر کے عوام تین سوسالہ غلامانہ ذہنیت سے باہر نہیں نکل سکے جبکہ مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کی الیکشن سے دو دن پہلے لندن میں افغانستان کے نیشنل سیکورٹی چیف حمدُللہ محب کی تصویریں بھی چھپ گئیں (یاد رہے کہ محب نے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی تھی جس کی بنا پر حکومتی پالیسی کے تحت اس کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا)پاکستان کے دشمنوں سے قائد ن لیگ میاں محمد نوازشریف کی اس ملاقات کو قومی سطح پر سراہا نہیں گیااور ایک عام آدمی اور ووٹر پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔سیاست بڑا حساس سبجیکٹ ہے اور بندے کی ایک چھوٹی سی غلطی لُڈو کے سانپ کی طرح اسے کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈسکہ کا الیکشن مریم نوازشریف کی جارحانہ سیاست کی وجہ سے جیتا گیا لیکن اسکے بعد مریم نوازشریف نے غیرضروری جارحانہ انداز اپنا کر خود کو ہردلعزیز سیاستدانوں کی صف سے نکال لیا ہے۔ 
قارئین ہمارے خطے کے لوگ اپنے ہیرو کو باوصف ، باکردار اور محبت بھرا دل رکھنے والے ہیرو کے روپ میں دیکھنا پسند کرتے ہیںاور آزاد کشمیر کے حالیہ الیکشن میں ملک کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کی مرکزی لیڈرشپ یہ تاثر دینے میں ناکام رہی جس لامحالہ فائدہ سیاسی طور پر بھنور میں پھنسی ہوئی تحریک انصاف کو ہوا۔ مگر اس ایک چانس کو جناب عمران خان نے مس ہونے نہیں دیا اور میدان مار لیا۔ میری بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ،وزیراعظم عمران خان اور پی ٹی آئی قیادت کو الیکشن جیتنے پر دلی مبارکباد جبکہ پیپلزپارٹی میں میرے سابق ساتھی اور دوست چوہدری یاسین ،لطیف اکبر اور دوسرے رہنمائوں کو الیکشن جیتنے پر دلی مبارکباد دیتا ہوں۔الیکشن کی باتیں اور الیکشن تنازعات پسِ پشت ڈال کر اب ہمیں آگے کی طرف بڑھنا ہوگاوگرنہ سرحد پارہمارا مکار دشمن ہماری کسی چھوٹی سی کوتاہی کو کیش کروا کر کھیل کا پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ افغانستان میں پاکستان کیخلاف زہر افشانی کرنیوالوں کی بات کی جائے تو صدر اشرف غنی، نائب صدر امر صالح اورافغان مشیر حمداللہ محب سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ازبکستان میں وزیراعظم عمران خان کے ہاتھوں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں جھوٹے بیانات دینے پر افغان صدر اور نائب صدر کی دھلائی ہوئی تھی۔ اشرف غنی نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان سے طالبان کی مدد کیلئے دس ہزار جنگجو افغانستان میں داخل ہوئے ہیں۔ امرصالح نے بے وزن، بے تکی، مضحکہ خیز بات کی تھی کہ پاک فضائیہ نے افغان حکومت کو دھمکی دی ہے کہ طالبان نے سپن بولدک پر قبضہ کیا ہے۔ اسے چھڑانے کیلئے طالبان پر افغان فضائیہ نے حملے کیے تو پاک فضائیہ اس کا جواب دیگی۔ کسی بھی ملک کی طرف سے ایسے بیانات اداروں کی طرف سے نہیں آتے۔ ریاست کی طرف سے آتے ہیں۔ امر اللہ صالح اپنے بیان کے حق میں کوئی شواہد پیش نہ کر سکے۔

مزیدخبریں