مشتاق منہاس سے عرصہ ہوا ٹیلی فون پر بھی بات نہیں ہوئی ہے۔ وہ مگر میرے دل کے قریب ترین لوگوں میں شامل ہے۔ پرنٹ صحافت سے مجھے ٹی وی شوز کی جانب دھکیلنے میں اس نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ہم دونوں برسوں تک ایک ایسا پروگرام کرتے رہے جسے بے تحاشہ لوگ ٹرینڈ سیٹر ٹھہراتے ہیں۔ میں ذاتی طورپر اگرچہ اسے شوبز ہی شمار کرتا ہوں۔ٹی وی سکرین پر رونق لگانے کی کاوش ۔صحافت نام کی شے اس کاوش میں شاذہی نظر آتی ہے۔
مختصر تمہید کے بعد یہ اعتراف کرنے کو مجبور ہوں کہ آزادکشمیر کے حالیہ انتخابات میں وسطی باغ سے اپنی شکست کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہوئے مشتاق نے مجھے ہرگز حیران نہیں کیا۔وہ حیران کن حد تک حقیقت پسند شخص ہے۔اپنی محدودات سے بخوبی واقف۔حقیقت پسندی ہی اس کے چہرے پر مسکراہٹ کو ہمیشہ تروتازہ رکھتی ہے۔ وہ میری طرح ’’کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے‘‘ والے عذاب میں مبتلا نہیں رہتا۔ ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے اگرچہ سیاسی معاملات کو میں ہمیشہ غیر جانب داری سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
آزادکشمیر میں انتخابی مہم شروع ہوئی تو اس کی بابت اس کالم میں بھی اکثر ذکر ہوا۔ 1986کے بعد میں کبھی اس علاقے میں نہیں گیا۔ وہاں کی سیاسی حرکیات سے قطعاََ نابلد ہوں۔فیلڈ میں جائے بغیر انتخابی نتائج وقت سے پہلے سنادینے کی بھی مجھے عادت نہیں۔عملی صحافت سے ریٹائرہوجانے کے باوجود ماضی کے بنائے تعلقات کے سبب اگرچہ گوشہ نشین ہوتے ہوئے بھی سیاسی معاملات کے بارے میں چند ٹھوس اشارے مل جاتے ہیں۔
چند ماہ قبل گلگت بلتستان میں الیکشن ہوئے تو ان کے نتائج نے مجھے چونکا دیا تھا۔ان نتائج نے اگرچہ یہ سوچنے کو بھی مجبور کردیا کہ آزادکشمیر میں بھی بالآخر تحریک انصاف ہی کامیاب رہے گی۔بنیادی وجہ میری دانست میں وہ روایت ہے جو وہاں کے لوگوں کو اسی جماعت کا ساتھ دینے کو اُکساتی ہے جو وفاق میں بھی برسراقتدار ہو۔میرے قیافے کو درست ثابت کرنے کے لئے تحریک انصاف نے سردار تنویر الیاس کو مشتاق منہاس ہی کو اس کے آبائی شہر سے شکست دینے کے لئے لانچ کردیا۔ سردار صاحب سے سرسری ملاقات کا بھی مجھے کبھی موقعہ نہیں ملا۔ان کی خوشحالی سے مگر اسلام آباد کا ہرمکین واقف ہے۔اس شہر کا جدید ترین رہائشی اور کاروباری پلازہ ان کی ملکیت ہے۔سردار صاحب کو مشتاق منہاس کو شکست دینے کے لئے میدان میں اتارا گیا تو میرے کان کھڑے ہوگئے۔بنیادی پیغام یہ ملا کہ تحریک انصاف آزادکشمیر کا انتخاب جیتنے کا مصمم ارادہ باندھ چکی ہے۔ سردار صاحب باغ کے رہائشی نہیں ہیں۔ان کا وسطی باغ میں ہونے والے مقابلے کے لئے چنائو مگر ایک ٹھوس اور واضح پیغام دے رہا تھا۔ تحریک انصا ف کی خوداعتمادی کا بھرپور اظہار بھی تھا۔
سردار صاحب کے انتخابی میدان میں اترنے کے بعد میری چند ایسے افراد سے گفتگوہوئی جو حکومت سازی کے حوالے سے جائزوناجائز بنیادوں پر حتمی فیصلہ ساز شمار ہوتے لوگوں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔تحریک انصاف کی کامیابی انہیں دیوار پر لکھی نظر آرہی تھی۔ ان کی گفتگو کا حیران کن پہلو مگر یہ رہا کہ وہ تحریک انصا ف کے بعد پیپلز پارٹی کو آزادکشمیر کی دوسری بڑی جماعت کی صورت ابھرتا ہوا دیکھ رہے تھے۔نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کو ’’5یا 6‘‘ نشستوں کے ساتھ یہ افراد تیسرا نمبر دیتے رہے۔ مذکورہ اندازوں کو میں اس کالم میں تواتر سے دہراتا رہا ہوں۔
محترمہ مریم نواز صاحبہ کو لیکن مسلم لیگ (نون) نے انتخابی مہم کے لئے لانچ کیا تو ان کے بھرپور اور پرجوش جلسوں نے چند قیافہ شناسوں کو یہ باور کرنے کو اُکسایا کہ شاید آزادکشمیر میں اب ماضی کی طرح وفاق میں برسراقتدار حکومت کا ساتھ دینے والی روایت برقرار نہیں رہے گی۔جوش جذبات میں چند صحافی دوست یہ دعویٰ بھی کرنا شروع ہوگئے کہ اگر مسلم لیگ (نون) کو ’’5یا 6نشستوں تک محدود رکھاگیا‘‘تو ہنگامہ کھڑا ہوجائے گا۔ انتخابی نتائج تسلیم نہیں کیے جائیں گے۔دھاندلی کے الزامات بالآخر اسلام آباد کی جانب احتجاجی مارچ کی راہ بھی بناسکتے ہیں۔میرے دوست یہ بھی تصور کرتے رہے کہ مقبوضہ کشمیر کی تازہ صورت حال کے تناظر میں ہماری ریاست کے دائمی ادارے آزادکشمیر میں دھاندلی کے الزامات اپنے سرلینے سے گریز کریں گے۔مذکورہ دعویٰ کو ایک اہم ادارے کے سینئر افسر کی انتخابی مہم کے دوران تبدیلی نے مزید تقویت بخشی۔
میں ذاتی طورپر اس روایت کو اٹل نہیں سمجھتا کہ آزادکشمیر میں فقط اسی جماعت کو کامیاب ہونا چاہیے جس کی اسلام آباد میں بھی حکومت ہو۔سیاست بنیادی طورپر ایک تحریکی عمل بھی ہے اور تحاریک روایات کو پاش پاش کردینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ تحریکی مزاج مگر روایتی انتخابی مہم پر ہی انحصار نہیں کرتا۔ اسے ایک پرکشش نعرے اور توانا بیانیے کی ضرورت ہوتی ہے۔مسلم لیگ (نون) نے ’’کشمیر صوبہ نہیں بنے گا‘‘ والا نعرہ ایجاد کرنے میں بہت دیر لگائی۔ اس نعرے کو توانا تردکھانے کے لئے یہ بھی لازمی تھا کہ آزادکشمیر کے وزیر اعظم کے پاس ایسی ٹھوس مثالیں موجود ہوتیں جن کے ذریعے وہ بارہا اصرار کرتے کہ آزادکشمیر کے عوام کی فلاح وبہبود کے لئے وہ فلاں فلاں منصوبہ لے کر اسلام آباد گئے تھے۔ 2018سے مگر تحریک انصاف کی حکومت ان سے ملاقات کو بھی تیار نہیں ہو رہی۔ راجہ فاروق حیدر میری اطلاع کے مطابق ذاتی طورپر بدعنوان نہیں۔وہ مگر جذباتی آدمی بھی ہیں۔مودی سرکار کی جانب سے 5اگست 2019کے روز لئے اقدامات نے انہیں خود کو’’فرزندکشمیر‘‘ ثابت کرنے کا بہترین موقعہ فراہم کیا تھا۔وہ اس سے بھی فائدہ نہ اٹھاپائے۔عمران خان صاحب کو ’’کشمیر فروشی‘‘ کے طعنے دینے تک ہی محدود رہے۔
مسلم لیگ (نون) 2016سے آزادکشمیر میں برسراقتدارہے۔وہاں کی حکومت سے مگر ایسے میگا پراجیکٹس منسوب نہیںہوئے جن کی وجہ سے پنجاب میں اس جماعت کا ووٹ بینک اب بھی بہت طاقتور نظر آتا ہے۔پانچ سالہ دور اقتدار لوگوں کی توقعا ت پر اکثر پورا نہیں اترتا۔انگریزی میں اسے Incumbency Factorکہتے ہیں جو نئے انتخابات کے دوران گلے کی ہڈی بن جاتا ہے۔ووٹروں کی توقعات پوری نہ ہوںتو وہ دوسری جماعت کو ’’موقعہ‘‘ دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔تحریک انصاف نے اس رویے کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ سردار تنویر کو باغ میں لانچ کرنا یہ بھی عندیہ دے رہا تھا کہ وہ محض مذکورہ رویے پر ہی تکیہ نہیں کررہی۔اپنی جیت یقینی بنانے کے لئے مالی اور برادری کے اعتبار سے تگڑے Electablesکو بھی اپنے ساتھ ملارہی ہے۔
تحریک انصاف کی انتخابی مہم چلانے کے لئے وفاقی امور کشمیر علی امین گنڈا پور نے یقینارعونت بھری ڈھٹائی کا بارہا مظاہرہ کیا۔ جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا انداز گفتگو جارحانہ مگر بازاری بھی رہا۔آزادکشمیر کے الیکشن کمیشن نے انہیں ریاست سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔اس حکم کووہ مگر کسی خاطر میں نہیں لائے۔ مسلم لیگ (نون) فقط اس معاملے ہی کو اپنی انتخابی مہم کو تحریک کی صورت دکھانے کے لئے استعمال کرسکتی تھی۔ علی امین گنڈا پور کی ڈھٹائی کو انتخاب کے بائیکاٹ کا جواز بھی بنایا جاسکتا تھا۔وہ مگر اس ضمن میں بے بس ولاچار نظر آئی۔علی امین اور ان کی جماعت اس تناظر میں بلکہ ناقابل تسخیر‘‘ جگا‘‘ ثابت ہوئے۔تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ووٹرعموماََ ’’لسے‘‘ کے پیچھے چلنے کو تیار نہیں ہوتے اور علی امین گنڈا پور کے حوالے سے مسلم لیگ (نون) آزادکشمیر کے لوگو ں میں ’’لسی‘‘ ثابت ہوئی۔’’جیہڑا جتے اوہدے نال‘‘ والا ماحول لہٰذا بن گیا۔اپنا ووٹ’’ضائع ‘‘نہ کرنے کی عادت بھی بالآخر تحریک انصاف کو انتخاب جتوانے میں مددگارثابت ہوئی۔