دیکھئے میاں نواز شریف نے کئی سیاسی غلطیاں کی ہوں گی، کرپشن، لوٹ مار، اقربا پروری، میرٹ کا قتل عام، اداروں کی تباہی سمیت دیگر کئی خرابیاں تو اپنی جگہ ہیں لیکن قومی سلامتی کے حوالے سے ان کا کردار نہایت خراب رہا ہے۔ ان دنوں بھی وہ ماضی کی غلطیوں کو دہرا رہے ہیں، وہ اقتدار سے الگ عوامی سطح پر مسترد کیے جانے کے بعد ہوئے لیکن اس کے بعد انہوں نے اس ناکامی کا بدلہ قومی سلامتی کے اداروں سے لینا شروع کیا، عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ریاستی اداروں کو متنازع بنانے کی کوشش شروع کی، عوامی سطح پر نفرت پھیلانے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ مہم صرف اور صرف ذاتی مفادات کی خاطر تھی جب میاں نواز شریف نے یہ بیانیہ اپنایا اس وقت بھی میں نے مخالفت کی تھی۔ ملک کے چند جمہوریت یا ترقی پسند صحافیوں نے میاں نواز شریف کے بیانیے کی تائید کی یقیناً ان سے سمجھنے میں کوئی غلطی ہوئی ہے کیونکہ کوئی بھی محب وطن ملکی سلامتی کے خلاف بیانیہ اپنا نہیں سکتا اب میاں نواز شریف کے چہرے سے نقاب اترنا شروع ہوا ہے۔ لندن میں اشرف غنی حکومت کے پاکستان مخالف نمائندوں سے ملاقاتوں کے بعد آزاد کشمیر انتخابات میں مسلم لیگ نون کے امیدوار اسماعیل گجر کی بھارت سے مدد کی دھمکی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ میاں نواز شریف نے جو سبق اپنے دیوانوں کو پڑھایا ہے ان میں سے کچھ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنتے ہیں اور اس حد تک آگے نکل جاتے ہیں کہ عقل ہی جواب دے جاتی ہے۔ اب موصوف دلائل دے رہے ہیں حالانکہ دشمن سے مدد کی دھمکی کے بعد کسی دلیل میں وزن نہیں رہتا، آپ کسی بھی طریقے سے لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کریں کوئی یقین نہیں کرے گا کیونکہ ہر واقعے کا ایک پس منظر ہوتا ہے اور اسماعیل گجر کی اس دھمکی کا پورا اور بھرپورپس منظر ہے جس میں میاں نواز شریف کا بھارت کی طرف غیر معمولی جھکاؤ، پاکستان کے دفاعی اداروں کے خلاف سازشیں پھر حال ہی میں پاکستان دشمنوں سے اعلانیہ ملاقاتوں کے بعد کوئی شک نہیں رہتا کہ کون کیا اور کیوں بول رہا ہے۔ اسماعیل گجر کی بھارت سے مدد کی دھمکی اعلانیہ تھی جب کہ میاں نواز شریف کی عین آزاد کشمیر کے انتخابات کے وقت پاکستان دشمنوں کے ساتھ لندن میں ملاقات امریکہ، اسرائیل اور بھارت کو یقین دلانے کے لیے تھی۔ اب آزاد کشمیر میں مسترد ہونے کے بعد بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلیں گی کیونکہ میاں نواز شریف ریاستی اداروں کے ساتھ دشمنی اور پاکستان دشمنوں کے ساتھ دوستی میں اس حد تک آگے نکل چکے ہیں کہ ان کے پاس واپسی کا کوئی راستہ ہی نہیں بچا انہوں نے تمام راستے خود بند کیے ہیں۔ نون لیگ کی طرف سے اسماعیل گجر کو شوکاز نوٹس بھی نمائشی ہے جس نے جاری کیا ہے وہ تو خود یہی چاہتا تھا کہ کوئی تنازع ہو، نفرت پھیلانے کا کوئی موقع آئے، ان کی نائب صدر کی بھی یہی خواہش رہتی ہے کہ کہیں سے تو ایسا موقع ملے کہ ریاستی اداروں کو نشانہ بنایا جائے۔ ان حالات میں اس شوکاز نوٹس کی کیا حیثیت ہے اگر اس کے نتیجے میں کوئی کارروائی ہوتی ہے تو اس کی کیا حیثیت ہے جو نقصان پہنچنا تھا وہ پہنچ چکا اور جنہیں پیغام پہنچانا تھا وہ پیغام بھی پہنچایا جا چکا ہے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے نہایت واضح الفاظ میں میاں نواز شریف کے مستقبل پر بات کی ہے۔ جبکہ کہیں کہیں انہوں نے سائرن کی تائید بھی کی ہے۔ مجھے تو پہلے ہی کوئی شک نہیں کہ میاں نواز شریف اب شاید ہی وطن واپس آئیں وہ اپنی اننگز کھیل چکے ہیں اب انہوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ باقی زندگی سکون سے گذارتے ہیں یا پھر پاکستان کے مخالفین، پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ ساز باز میں مصروف رہتے ہیں۔ شیخ رشید کہتے ہیں "نواز شریف فوجی نرسریوں سے نکلے اور اسی فوج کے خلاف بدزبانی کرتے ہیں اب ساری زندگی بھی لگے رہیں تو اقتدار کا منہ نہیں دیکھ سکیں گے۔ غیر ذمہ دارانہ زبان ختم کرنے تک ان کا کوئی مستقبل نہیں۔ نوازشریف کا ایجنڈا اینٹی آرمی، اینٹی سٹیبلشمنٹ اور اینٹی عمران خان مہم چلانا ہے۔ ہم ان کی مدد کرنے چارٹرڈ جہاز دینے کو تیار ہیں، وہاں بیٹھ کر اینٹی اسٹیٹ اور اینٹی عمران خان تقریریں نہ کریں".
شیخ صاحب نے تھوڑی نرمی کر دی ہے میرے خیال سے زبان میں تبدیلی سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ میاں صاحب جہاں موجود ہیں ادھر ہی رہیں گے اب ان کی ملکی سیاست میں واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ان کے بھائی میاں شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں کو بھی فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ میاں نواز شریف کے ریاست مخالف بیانیے کے ساتھ سیاست جاری رکھ سکتے ہیں یا نہیں کیونکہ ہر گذرتے دن کے ساتھ میاں نواز شریف کے ریاست مخالف بیانیے کی مخالفت بڑھتی چلی جائے گی۔ آزاد کشمیر میں ان کی جماعت کو بڑے فرق سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ شکست درحقیقت ان کے بیانیے کی شکست ہے۔ مریم نواز شریف نے آزاد کشمیر انتخابات نتائج تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ اس سے پہلے ہونے والے ضمنی انتخابات میں نون لیگ کو کامیابی ملی انہوں نے وہاں بھی شور مچایا اب آزاد کشمیر کے انتخابات کے بعد بھی نتائج تسلیم نہ کرنے کی گردان جاری ہے۔ انہیں صرف وہی نتائج قابلِ قبول ہوتے ہیں جو ان کے والد کو ایوانِ وزیراعظم تک پہنچا دیں۔ اب وہ وقت نہیں رہا، میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی ابھی تک ماضی میں چل پھر رہے ہیں انہیں چاہیے کہ حقیقت کی زندگی میں واپس آئیں اور دیکھیں کہ عوام نے انہیں کیسے مسترد کیا ہے۔ وہ بھارت سے مدد کے خواہشمند ہیں جبکہ بھارت کو خود مدد کی ضرورت ہے۔ نریندرا مودی کے مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کے اندرونی و بیرونی دوستوں کا بھی مشکل وقت شروع ہونے کو ہے۔ نون لیگ میں دھڑے بندی واضح ہو رہی ہے آزاد کشمیر میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ بھی بھارت نواز بیانیہ ہے۔ حالیہ انتخابات میں نون لیگ تقسیم تھی اور مرکزی قیادت نے پارٹی کو جوڑنے کی طرف کام نہیں کیا آنے والے دنوں میں اس حوالے سے مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔