CONFUSION  VERSUS  CONFOUNDED 

ضیاء الحق نے طویل عرصہ تک حکمرانی کے بعد محدود پیمانے پر جمہوریت بحال کرنے کا اہتمام کیا۔ غیر پارٹی الیکشن میں پیر پگاڑا کے ایک مرید محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنا دیا، لیکن 58-2-B کی صورت میں کنٹرول اپنے پاس رکھا۔ ایک سال کے قلیل عرصے میں ہی جونیجو اپنے آپ کو سچ مچ کا وزیراعظم سمجھنے لگا۔ ضیاء الحق نے اسے سمجھانے کی مقدور بھر کوشش کی۔ ’’ٹھنڈا کرکے کھا‘‘ لیکن اس حالت میں کچھ باتیں دیر کے بعد سمجھ میں آتی ہیں۔ اس کاسہو ٹوٹ کر اسے سرمست کر گیا۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی جس کا ذکر ابن خلدون نے خاندان برامکہ کے زوال پر کیا ہے۔
Haroon was often forced to the necessity of asking for and not getting from the small sums from the exchquer
ضیاء الحق کو معمولی فنڈز کے لیے بھی بار بار کہنا پڑا۔ اس کے بیرون ملک شرکاء کی فہرست کو وزیراعظم آدھا کر دیتا۔
جونیجو غیرملکی دورے پر تھا تو اسے دیار غیر میں پتہ چلا کہ وہ وزیراعظم نہیں رہا۔ محض سندھی وڈیرہ رہ گیا ہے۔ واپسی پر اس نے ملاقات پر جنرل سے دو درخواستیں کیں۔ (i) اسے سرکاری جہاز پر سنڈھڑی بھیجا جائے۔ (ii) الٰہی بخش سومرو کو وزیراعظم نہ بنایا جائے۔ کس قدر معصوم خواہشات تھیں۔ پہلی پر تو ضیاء الحق مسکرا دیا۔ البتہ دوسری پرکہا۔ It is none of your business 
وقت نے جنرل کو جونیجو کا جانشین چننے کی مہلت نہ دی۔ ایک ہوائی حادثے میں اس کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد میوزیکل چیئرز کا کھیل شروع ہو گیا۔ بینظیر اور نوازشریف باری باری وزیراعظم بنتے اور اترتے رہے۔ اس تمام عرصے میں ہر دونے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بھرپور کوشش کی۔10 پرسنٹ اور سنٹ پرسنٹ کے الزامات لگائے۔ اور فوجداری مقدمات بنائے گئے۔ اقربا پروری اور دوستوں کو جائز ناجائز نوازنے کی حد کر دی گئی۔ ججوں کو ترغیب دی گئی کہ وہ مخالف فریق کو سزائیں دیں۔ الیکشن میں دھونس اور دھاندلی کے ریکارڈ توڑنے کے الزامات بھی لگائے گئے۔ ایک نے دوسرے کو جائز حکمران ماننے سے انکار کر دیا۔ حکومت گرانے کیلئے کئی لانگ اور شارٹ مارچ کئے گئے۔ جمہوری قدریں پامال ہوئیں۔ اس کی روح کو عملاً دفن کر دیا گیا۔آخری ملٹری ٹیک اوور نوازشریف کے دوسرے دور میں ہوا۔ اپنے ہی آئوٹ ٹرن سلیکٹ کئے ہوئے آرمی چیف جنرل مشرف سے سینگ پھنسا بیٹھے۔ گو چیف کو بنانا اور ہٹانا وزیراعظم کا آئینی احتیار ہے، لیکن اس کیلئے بڑا بھونڈا طریقہ اختیار کیا گیا۔ مشرف سری لنکا کے دورے کے بعد جہاز پر بیٹھا تو اسے ہٹا دیا گیا۔ پھر اس کمرشل فلائٹ کو لینڈ کرنے کی اجازت نہ ملی جن میں مشرف کے ساتھ سینکڑوں لوگوں کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا۔ میاں صاحب نے بھی ضیاء الحق والا طریقہ اختیار کرنا چاہا، لیکن وہ اس بات کو فراموش کر بیٹھے کہ وہاں ہٹانے والا جنرل تھا۔ یہاں جس کو برطرف کیاگیا وہ ہنوز یونیفارم میں تھا۔ وہ بھی کچی گولیاں نہیں کھیلا تھا۔ وہ تمام حفاظتی بند باندھ کر عازم سفر ہوا تھا۔ کور کمانڈر جنرل محمود نے انکی ایک نہ چلنے دی اور تمام امور سنبھال لئے۔
ایک طویل جلاوطنی کے بعد میاں صاحب اور بینظیر واپس آئیں تو ان کیلئے سیاسی فضا کافی حد تک ہموار ہو چکی تھی۔ محترمہ الیکشن کمپین کے دوران دہشت گردی کا شکار ہو گئی۔ وقت آن پہنچا تھا وگرنہ انہیں ہر قسم کے خطرات سے بروقت آگاہ کر دیا گیا تھا۔ اتنے بڑے سانحہ نے ملک میں پیپلزپارٹی کیلئے اقتدار کی راہ ہموار کر دی۔ زرداری نے بادشاہ بننے کی بجائے بادشاہ گر بننا زیادہ مناسب سمجھا اور ملتان کے یوسف گیلانی کو وزیراعظم بنا دیا۔ خود بطور حفظ ماتقدم صدارت کی کرسی پر براجمان ہو گیا۔ قبلہ گیلانی صاحب نے اس عرصے میں جو گل کھلائے، وہ زبان زد خاص و عام ہیں۔ چونکہ کافی کام ’’چوری چوری، چپکے چپکے کرتے تھے، اس لئے زرداری ناراض تھے۔ زرداری کے خلاف خط نہ لکھنے پر سپریم کورٹ نے انہیں وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا۔ درحقیقت زرداری بھی یہی چاہتے تھے وگرنہ وہی خط انکے جانشین وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے نہ لکھواتے۔بڑی حیران کن بات ہے کہ میاں نواز شریف تیسری بار بھی وزیراعظم منتخب ہو گئے۔ گو مسلم لیگ عملاً پنجاب تک محدود ہو گئی ہے، لیکن اس صوبے کی سیٹیں بقیہ تین صوبوں کو ملا کر بھی زیادہ بنتی ہیں۔ پارٹی کو قومی رنگ دینے کیلئے مخصوص حکمت عملی برتی جاتی ہے۔ دیگر صوبوں کے چیدہ چیدہ Electibles کو وزارت کا عندیہ دیکر پارٹی میں شمولیت اختیار کرائی جاتی ہے۔ جیتنے کی صورت میں کہا جاتا ہے کہ پارٹی کی جڑیں تمام ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔
عمران خان نے میاں صاحب پر دھاندلی کا الزام لگایا اور 126 روز تک اسلام آباد میں دھرنا دیا۔عمران خان کی کاوش بے سود نے ایک بات ثابت کر دی۔ دھرنوں اور ہڑتالوں سے حکومتیں نہیں جاتیں۔ بالفرض یہ بات درست ہے تو پھرکیا سوچ کر پی ڈی ایم نے لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔ ان کا ایک مارچ تو پہلے ہی ناکام ہو چکا تھا اگر لانگ مارچ کی تاریخ دیکھی جائے تو یہ وطن عزیز میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ مولانا صاحب اور (ن) لیگ استعفوں پر زور دے رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے انکار کر دیا ۔ انہیں اس بات کا ادراک نہیں تھاکہ انکے اپنے ممبر بھی یہ نہیں چاہتے اس سے کئیDesertions ہو سکتی ہیں۔ پھر اگر یہ رسم پڑ گئی تو کوئی حکومت بھی نہیں چل پائے گی۔ کل کلاں ہاری ہوئی پارٹیاں دھاندلی کا الزام لگا کر استعفے دیکر حکومت گرانے کا مطالبہ کریںگی۔بالآخر پی ڈی ایم ہی ٹوٹ گئی۔ پیپلزپارٹی اور اے پی این الگ ہو گئیں۔
اس تاریخی تناظر میں اصل مسئلہ جمہوریت کا مستقبل ہے۔ کسی زاویے سے بھی دیکھا جائے یہ تابناک نظر نہیں آتا۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں نظام آزمایا جا چکا ہے۔ ہر نظام ناکام ہوا ہے۔ تو پھر کیا جائے؟ یہی لمحہ فکریہ ہے اور اسی کے متعلق ہمیں من حیث القوم سنجیدگی کے ساتھ سوچنا ہے۔(ختم شد) 

ای پیپر دی نیشن