اسلام آباد (سپیشل رپورٹ) صدر عارف علوی نے کہا ہے کہ صدارتی نظام نہیں، جمہوری نظام ہی ملکی مسائل کا حل ہے، آرمی چیف کی تقرری وقت سے پہلے کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ صدر پاکستان عارف علوی نے سینئر صحافیوں کے ایک گروپ سے گفتگو میں کہا کہ ملک کا حل صدارتی نہیں بلکہ جمہوری نظام میں ہے، وزیر اعظم کی جانب سے بھیجی جانے والی 74 میں سے 69 سمریاں دستخط کر کے فوری واپس بھجوائیں۔ بطور صدر مملکت میرے پاس اختیار نہیں کہ میں کسی کو کہوں کہ ڈائیلاگ کرو، ہاں اگر سٹیک ہولڈرز چاہیں اور آمادہ ہوں تو مجھے سہولت مہیا کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں، یہ تاثر غلط ہے کہ میرے وزیر اعظم سے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں، بلاول بھٹو نے امریکا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی ہے، امریکا پاکستان سے تعلقات ختم نہیں کرنا چاہتا، غیر ملکی خط پر اگر کسی ادارے نے تحقیقات کی ہے تو عوام میں لانا چاہئے۔ میں نے نہ آئین توڑا ہے نہ غداری کی ہے، جس نے غداری کی ہے اس پر آرٹیکل 6 ضرور لگائیں، ذاتی حیثیت میں سمجھتا ہوں کہ واضح مینڈیٹ بہت ضروری ہے اس کیلئے وقت کوئی بھی ہو طے کیا جانا چاہیے، نیب ترمیمی بل، الیکٹرانک ووٹنگ مشین اوورسیز کے حق ووٹ اور گورنر پنجاب سے متعلق سمریاں میں نے روکیں، ان سمریوں کو روکنے پر مجھے چیئرمین پی ٹی آئی سمیت کسی طرف سے کوئی دباؤ نہیں تھا، میرے ذہن میں کچھ سوالات تھے اس لئے ان چند سمریوں کو میں نے روکا کیونکہ میں سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ اور دھاندلی کے الزامات کے خاتمے کیلئے الیکٹرانک مشین اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا شروع سے حامی ہوں اور اسمبلی میں بھی اس کیلئے آواز اٹھاتا رہا ہوں۔ عمران خان سے واٹس ایپ پر بات ہوتی ہے، عمران خان سے آخری بات تب ہوئی تھی جب گورنر پنجاب کا ایشو ہوا تھا، تمام فریق راضی ہوں تو پریذیڈنٹ ہاؤس کردار ادا کرسکتا ہے، ڈائیلاگ اسی صورت ممکن ہے جب تمام فریق راضی ہوں۔ کسی بھی ملک میں غیر یقینی سیاسی و معاشی صورتحال سے معاشرے میں پولرائزیشن پھیلتی ہے جو کہ ہر کسی کے مفاد کیلئے نقصان دہ ہے اس لئے تمام متعلقہ فریقوں کو ملک کے آئین اور متعلقہ قوانین کے اندر رہتے ہوئے مشاورتی عمل کے ذریعے سیاسی و معاشی استحکام لانے کیلئے بامعنی اقدامات کرنے چاہئیں۔ ریاست اور آئین کے تمام ستونوں کو آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے آزادانہ اور شفاف انتخابات کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، چاہے جب بھی یہ انتخابات ہوں، حکومت سازی کیلئے راہ ہموار کرنی چاہئے جو کہ پاکستانی عوام کی خواہشات اور امنگوں کی حقیقی عکاس ہو، صرف وہی حکومت جو شفاف، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آئے گی وہ ملک میں ضروری سیاسی، مالی و معاشی استحکام لا سکتی ہے۔ آرمی چیف کی جلد تعیناتی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں صدر نے کہا کہ اگر آرمی چیف کی تعیناتی متعلقہ قوانین اور مروجہ طریقہ کار کے ذریعے شروع کی جاتی ہے اور متعلقہ اداروں اور افسران کی جانب سے اس کی باضابطہ منظوری ہوتی ہے تو انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ فوج کا کردار آرٹیکلز 8 (3) (a)، آرٹیکل 39، آرٹیکل 243 سے 245 اور آئین کے فورتھ شیڈول کے اندراج نمبر 1& 2 کے تحت واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 6 سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے حوالہ سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ آئین، مخصوص قوانین، طریقہ کار اور ضمیر کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اس لئے وہ ایسی صورتحال پیدا ہونے پر اپنا مؤقف واضح کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کی پالیسیاں صرف ایک بلاک سے مکمل طور پر جڑی ہوئی تھیں جو کہ کسی صورت ملکی مفاد میں نہیں تھا۔ صدارتی نظام سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پارلیمانی نظام کا تجربہ ہو چکا ہے اور یہ ملک کیلئے طویل عرصہ سے بہترین نظام ثابت ہوا ہے۔ آرٹیکل 58 ٹو بی جیسی شقوں کے ذریعے صدر کو اضافی اختیارات دینا ملک کے وسیع تر مفاد میں نہیں تھا۔
جمہوری نظام مسائل کا حل ، وزیراعظم سے میرے تعلقات ٹھیک نہ ہونے کا تاثر غلط: صدر
Jul 27, 2022