مکرمی! 9 جولائی 2022ء کے اخبار (نوائے وقت) میں خوشگوار حیرت انگیز خبر پڑھنے کو ملی، جو اس طرح تھی۔ 11 ایوان صدر نے بجلی کی مد میں 10 کروڑ 80 لاکھ روپے بچت کی۔‘‘ سچ تو یہ ہے کہ میں نے بحیثیت سینئر سٹیزن (80 سالہ) ایوبی دور سے موجودہ حکومت تک پہلی دفعہ سربراہِ مملکتِ پاکستان کا اتنا بڑا مخلصانہ قومی مفاد میں اقدام دیکھا ہے۔ بلاشبہ صدر مملکت نے یہ مستحسن اقدام ’’گرین پریذیڈنسی منصوبہ‘‘ کے تحت کر دکھایا اور اقوامِ عالم میں پاکستان کو سربلند کر دکھایا ہے۔ ایوانِ صدر میں فقط دو سالہ رہائشی مدت میں اتنے بڑے کارنامہ پر قوم جتنا بھی فخر کرے کم ہے۔ یہ کارنامہ صدارتی رہائش گاہ کو شمسی توانائی کے 1 میگاواٹ پر منتقل کر کے انجام دیا گیا۔ ہم انتہائی سستی بجلشی پیدا کرنے والے ہائیڈل سسٹم کو چھوڑ کر انتہائی مہنگا بجلی کا سسٹم تھرمل پاور اور ڈیزل پاور سسٹم اپنا کر بیرون ممالک سے مہنگا فیول منگوا کر بڑے بڑے کمشن سے اپنے گھروں میں سیم و زر کے انبار تو لگا لئے ہیں مگر قومی گھر (پاکستان) کو کنگال کر کے آئی ۔ ایم ۔ ایف اور عالمی بینک کے قدموں میں ڈال دیا۔ ہمیں اب فوری طور پر گورنر ہائوسز، پارلیمنٹ ہائوسز، پی ۔ ایم ۔ ہائوس، سی ۔ ایم ۔ ہائوسز، چیمبرز آف کامرس، بڑی بڑی انڈسٹریوں اور امراء کی رہائش گاہوں کو شمسی توانائی پر منتقل کر کے قوم کو بجلی کے بحران سے نجات دلائی جائے۔ اس ضمن میں براہِ کرم ہمارے سائنسدان اور انجینئرز شمسی توانائی کو مزید سستا کرنے میں اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کریں۔ مجھے آج بھی فضل خدا وندی سے امید واثق ہے کہ اگر پاکستانی قوم اب بھی شمسی توانائی کے حصول کے لیے عزمِ صمیم کر کے راہِ عمل پر کمربستہ ہو جائے تو ہم شمسی توانائی اپنا کر اپنے افلاس زدہ لوگوں کا مقدر بدل سکتے ہیں۔ (چودھری اسداللہ خان، نیو شاہ کمال کالونی اچھرہ لاہور)