یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ وقتی جذبے کے تحت فرحان ہو کر حقائق سے پردہ پوشی کر لیتا ہے اور اپنی کامیابی کے تکبر میں مبتلا ہوکرآنے والے ایام کے تغیر کا ادراک نہیں کر پاتا، عوامی رائے عامہ ایک خلش نما جذبہ ہے ، حکمرانوں کی ذرا سی کوتاہی عوامی رائے عامہ کو متاثر کر دیتی ہے ،حالیہ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں متفرق طبقات کی رائے اور تبصروںسے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرے میں دور اندیشی کا اندوہناک فقدان ہے۔
پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 25 ممبران کو الیکشن کمیشن نے ڈی سیٹ کیا تھا جس کے نتیجے میں ضمنی الیکشن کا انعقاد ہوا ، لہذا یہ 20 سیٹیں تحریکِ انصاف کی ہی تھیں جن میں سے وہ پانچ سیٹیوں پر اپنی برتری قائم نہ رکھ سکے اور جن حلقوں میں پی ٹی آئی جیتی وہاں اس کا ووٹ بینک بھی کم ہوا ، جس کا مطلب ہوا کہ پنجاب کے ان 20 حلقوں میں تحریکِ انصاف کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ، تحریک ِ انصاف اور بعض حلقوں کا یہ کہنا زمینی حقائق سے پردہ پوشی ہے کہ تحریک ِ انصاف نے میدان مار لیا یا دھوبی پٹڑا مار دیا یا مردِ بحران نے میدان جیت لیا میری رائے میں ایسا بالکل نہیں کیوں کہ یہ تما م کی تمام صوبائی اسمبلی کی نشستیں تحریکِ انصاف کی ہی تھیں 5 سیٹیں اور عوامی مقبو لیت میں زبردست کمی کی صورت میں پی ٹی آئی جیتی نہیں بلکہ ہاری ہے ، لہٰذا یہ تحریکِ انصاف کی قیادت کیلئے لمحہء فکریہ ہے،ن لیگ باقی 15 نشستوں پر خاطر خواہ کارگردگی نہ دکھا سکی یا یوں کہہ لیں کہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے ن لیگ کو تنہا چھوڑ دیا اور ان کے ووٹروں نے اپنی رائے دہی سے اجتناب کیا ۔ملک کی سیاسی جماعتوں میں دور اندیشی کا فقدان ہر سطح پر پایا جاتا ہے ، سرِ دست معاشی ابتری ، مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام کے ہوتے ہوئے عام انتخابات کی بات کرنا ملک۔ کو مزید معاشی بحران میں دھکیلنے کے مترادف ہوگا ، ملک کی گرتی ہوئی معیشت کے تناظر میںفی الوقت الیکشن مسائل کا حل بلکل نہیں ہیں ،اگر عام انتخابات کی طرف ملک کو دھکیلا گیا تو ملک کے مالی معاملات کسی کے کنٹرول میں نہیں رہیں گے ،عوام اجتماعی طور پر اداروں اور عدلیہ پر اعتماد نہیں رکھتے ، خوف اور ناامیدی کی سی صورتحال میں مہنگائی کے عذاب میں مبتلا عوام پر تین ماہ کی مدت کا نگران سیٹ اپ مکمل طور پر اپ سیٹ کر دے گا معاشی استحکام کے بغیر کوئی بھی پارٹی یا حکومت ملک کی گرتی ہوئی معیشت کو سنبھال نہیں سکے گی ، کیونکہ عام انتخابات سے پہلے تین ماہ کیلئے نگراں حکومت کے قیام سے ملک شدید مالی مشکلات کا شکار ہوگا ،معیشت کا چلتا پہیہ رک جائے گا ، آئینی اعتبار سے نگراں حکومت کسی قسم کا عالمی معاہدہ نہیں کر سکے گی ،جس کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان اٹھے گا ، ڈالر بے قابو ہو کر آسمان کو چھو ئے گا ، سٹاک مارکیٹ کرش کر جائے گی صنعتیں خام مال کی کمی کی وجہ سے بند ہو جائیں گی، الیکشن کے اخراجات اور معیشت کی تنزلی کی وجہ سے روپیہ کی قدر میں اسقدرکمی واقع ہو گی کہ ملک دیوالیہ ہو جائے گا ۔
جولائی 2022 ء میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں 2023 ء کے عام انتخابات کیلئے اخراجات کی تفصیلات جاری کی گئیں جس کیمطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 47 ارب 41 کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا ہے ، ان انتخابات میں آرمی سمیت سیکورٹی کیلئے 15 ارب روپے ، الیکٹرانک ووٹنگ کرانے کے لئے 5 ارب 60 کروڑ روپے، بیلٹ پیپر ز کی اشاعت عملے کی تربیت پر 4ارب 83 کروڑ روپے،الیکشن کمیشن کی دستاویز کے مطابق انتخابی عملے کی تربیت پر ایک ارب 79کروڑ روپے کا خرچہ ہو گا ، جب کہ صوبہ پنجاب میں انتخابات منعقد کرانے کیلئے 9ارب 65 کروڑ روپے ، صوبہ سندھ میں انتخابات کیلئے 3ارب65 کروڑ روپے درکار ہونگے ، خیبر پختونخواہ میں انتخابات کیلئے 3 ارب 95 کروڑ روپے اور بلوچستان میں انتخابات کیلئے ایک ارب 11 کروڑ روپے کے اخراجات درکار ہونگے ۔
آئی ایم ایف کی جانب سے موجودہ پروگرام کے تحت 6ارب ڈالر میں سے 3 ارب ڈالر پاکستان کو پہلے ہی مل چکے ہیں ، جب کہ آئی ایم ایف کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق اب قرض کی مد میں فراہم کی جانے والی رقم تقریباً 4.2 ارب ڈالر ہو جائے گی ، ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کے بعد کل رقم کو 6ارب سے بڑھا کر 7 ارب ڈالر کر دیا جائے گا ، آئی ایم ایف کے اس قرض سے الیکشن کروالیں یا ملکی معیشت کی بحالی پر صرف کرلیں یہ لمحہء فکریہ ہے ۔
کچھ بد خواہ چاہتے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہو جائے اور ان کا مخفی ایجنڈا پورا ہو جائے ، بار بار سری لنکا کی مثال دینا اور دھمکی آمیز رویہ عوام کو تشدد پر مائل کر رہا ہے ، سٹیٹ بینک کے قائم مقائم گورنر مرتضی سید نے حالیہ دنوں میں معاشی صورتحال اور سٹیٹ بینک سے متعلق پھیلائی جانے والی بے بنیاد خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا سری لنکا سے موازنہ بالکل بھی درست نہیں ہے ، ملک کی گھمبیر معاشی اور سیاسی عدم استحکام کی صورتحال کے پیشِ نظر تابع فعل الیکشن ملک مہنگائی اور مالی مشکلات کی دلدل میں پھنس جائے گا ۔
الیکشن یا معیشت کی بحالی لمحۂ فکریہ
Jul 27, 2022