پاکستانی سیاست دان آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا

ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت اور صلاحیتیں دے کر پیدا کیا‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا ملائکہ کی محفل میں یہ فرمانا ’’میں کرہ ارض میں اپنا نائب مقرر کرنے والا ہوں‘‘ اس بات کا ثبوت ہے کہ جو ہستی زمین پر خُدا کی خلافت کے مقام پر متمکن ہونے والی تھی اُس کی عظمت و شان میں قطعاً کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا ۔افسوس! آج کا انسان اپنے مقصد حیات کو پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے اگرچہ صدیوں سے انسان نے دنیا کو تسخیر کرنے کا سفر جاری رکھتے ہوئے چند مادی کامیابیاں ضرور سمیٹی ہیں۔مگر افسوس ہے کہ اس ساری جدوجہد میںانسانیت کی متاع عظیم کو اُسکی عظمتوں اور خوبیوں کے ساتھ شیطانیت اور حیوانیت کی چوکھٹ پر قربان کر دیا گیا۔
چند دن سے ہمارے مُلک کی سیاست میں ایک نیا رنگ غالب آگیا ہے ۔پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے الیکشن اور نتائج سے شروع ہونے والا ڈرامہ اب اپنے پورے عروج پر ہے ایک سیاسی خاندان کی باہمی تفریق نے انسان کے مقصد تخلیق اور مقصد حیات کے ساتھ ساتھ انسانیت سے متعلق بہت سے بھولے ہوئے سوالات کو دوبارہ جنم دیا ہے۔ مُلکی سیاست میں ایک بھونچال کی سی کیفیت ہے چنانچہ تخت پنجاب میں تبدیلی کے منتظر سیاست اور میڈیا کے بغل بچے اپنی بغلوں میں اور کچھ دوسروں کے گریبانوں میں جھانکنا شروع ہو گئے ہیں۔تاک جھانک کے اس دلچسپ کھیل میں بارہویں کھلاڑی بھی جاگ گئے ہیں اور اب وہ صرف پانی پلانے کی ذمہ داری تک محدود نہیں رہنا چاہتے کیونکہ اُن کے دلوں میںمُلک و قوم کا درد اچانک شدت اختیار کر گیا ہے دراصل موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے یہ’’ریزرو پلیئر‘‘ اپنی قیمت بڑھانا چاہتے ہیں۔ پی ڈی ایم کی جماعتوں کے فیصلے اور اُن کے اثرات ابھی تک ایک معمہ ہیںجو شائد کچھ وقت گزرنے کے بعد ہی حل ہو سکیں گے اس کے علاوہ عمران خان کا جارحانہ انداز مستقبل میں کیا رخ اپناتا ہے اس پر بھی سوالیہ نشان ہے جبکہ دوسری طرف نون لیگ کے رہنمائوںنے بھی ٹیسٹ میچ چھوڑ کر ٹونٹی ٹونٹی میچ کھیلنے کا ارادہ ظاہر کر دیا ہے اور یوں مستقبل میں سیاسی میدان کے اندر حدت بڑھنے کے امکانات نظر آتے ہیں جبکہ کچھ حلقے حکومت اور اپوزیشن میں مفاہمت کی بات کر رہے ہیںلیکن ایک تلخ حقیقت ضرور ہے کہ جس کسی نے بھی پاکستان اور عوام کو دھوکہ دیا،جھوٹے خواب دکھائے اور لُوٹا ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ آج گرج بھی رہا ہے اور آنکھیں بھی دکھا رہا ہے مگر جن بچاروں کو لُوٹا گیا وہ شخصیت پرستی کے ناسور میں مبتلا ،غلامی کا طوق گلے میں ڈالے بھنگڑے ڈال رہے ہیں کیونکہ ہماری سیاسی قیادت نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ان بچاروںکو ہمیشہ شعور کی آگاہی سے دور رکھا ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اقتدار کی اس لڑائی میں نقصان صرفپاکستان اور عام آدمی کا ہورہا ہے اور پاکستان معاشی اور سیاسی طور پر دیولیہ کے نزدیک پہنچ چکا ہے مگرافسوس ہمارے سیاسی قائدین ابھی تک ’’ہل من مزید‘‘ سے آگے نہیں سوچ سکے بلکہ حکومت اور اپوزیشن رہنما اپنی عوام کو ہر وقت ’’پاکستان سری لنکا بن جائے گا‘‘ کا بھاشن دے رہے ہیں۔ 
اس موقع پرپاکستانی معاشرے کے حوالے سے چند سوالات بہت اہم ہیں،کیا ہم ایک انسانی معاشرہ میں ر ہ رہے ہیں؟کیا ہمارا معاشرہ انصاف پر قائم ہے؟کیا امیر اور غریب کے لیے قانون اور اخلاقیات کی اہمیت ایک جیسی ہیں؟کیا عدل کے پیمانے سب کے لیے برابر ہیں؟کیا مہنگائی پر قابو پا لیا گیا ہے؟کیا عوام کو بنیادی سہولیات کی دستیابی ممکن بنا دی گئی ہے؟کیا کرپشن پر قابو پا لیا گیا ہے؟کیا فوری انصاف کا حصول ممکن ہو گیا ہے؟کیا مجرم کے مرتبہ اور عہدے کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر سزا دی جاتی ہے؟کیا پی ٹی وی پر حملہ کرنے والے اپنے انجام کو پہنچ گئے؟کیا سپریم کورٹ پر حملہ کرنے والے سلاخوں کے پیچھے گئے؟کیا سینٹ میں ووٹ خریدنے اور بیچنے والوں کے خلاف قانون حرکت میں آیا؟کیا دعازہرا جیسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات اُٹھا ئے گئے؟ کیا سانحہ ساہیوال کے لواحقین کو انصاف مل گیا ؟کیا سانحہ ماڈل ٹائون کے کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا ؟کیا دھرنے کے فتنے کو سجانے والے بے نقاب ہوگئے؟کیا رجیم چینج سٹوری سچ تھی؟کیاپنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخابات شفاف تھے ؟ کیا الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کردارجانبدار ہے ؟کیا موجودہ حکومت امپورٹڈ ہے؟کیا سابق چیئرمین نیب جنرل(ر) جاوید اقبال کے ویڈیو سکینڈل کا فیصلہ کبھی ہوگا؟ کیا تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کو پلانٹڈ کہنے والے سچے تھے؟ کیا مُلکی سلامتی کے اداروں کے خلاف بولنے والے جیل پہنچ گئے؟کیا پاکستانی قانون امیر کے گھر کی لونڈی جبکہ غریب کے لیے عذاب بن گیا ہے ؟کیا معزز عدلیہ کے خلاف بولنے والوں کا احتساب ہوا؟کیا ڈیل اور ڈھیل کی بات کرنے والے سچے تھے؟۔ کیا پاکستان میں عام آدمی یونہی دھکے کھاتا رہے گا اور امیر سب لُوٹ کر لے جائے گا؟

ای پیپر دی نیشن