سیاست پاکستان کا اہم ستون ہے۔ اس میدان میں غریب کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوتی اور اگرکوئی غریب کسی امیر کے کندھے پر بیٹھ کر میدان سیاست میں آجائے تو چند سال میں وہ غریب نہیں رہتا۔قیام پاکستان سے لیکر آج تک مختلف خاندانوں نے سیاست کے میدان میں آکر پاکستان کی خدمت کرنے کا دعویٰ کیا مگر حقیقت میں انہوں نے پاکستان سے زیادہ اپنی اور اپنے خاندان کی خدمت کی۔ عمران خان کی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے ختم کیاگیا ۔ اس عدم اعتماد میں جو ڈرامہ لگا وہ نیشنل نہیں انٹر نیشنل لیول پر دیکھا گیا۔ خان صاحب نے اس کو ایک سازش کا نام دیکر ملک میں افراتفری پھیلا دی۔ مظاہرے جلسے جلوس سب کچھ کیا مگر پھر بھی رزلٹ صفر رہا۔بقول پی ڈی ایم عمران کی حکومت نے ملک کا خانہ خراب کردیا۔مہنگائی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کردیا ہے اس لیے عمران خان کی حکومت ختم کرنا ضروری تھا ۔جیسے ہی عمران خان کی حکومت ختم ہوئی تو نہ صرف تحریک انصاف والوں نے بلکہ شیخ رشید نے بھی قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیامگر وہ استعفیٰ آج تک قبول نہیںہوئے۔ایک طرف ہمارے وزیراعظم ملک کیلئے کپڑے بیچنے کو پھر رہے ہیں اور دوسری طرف ان لوگوں پر کھربوں روپے لوٹائے جارہے ہیں۔
جیسے ہی وفاقی حکومت تبدیلی ہوئی اس کے اثرات نے پنجاب حکومت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پنجاب میں بھی اکھاڑ بچھاڑ کی سیاست شروع ہوگئی۔ پنجاب اسمبلی میں بھی وہی کچھ ہوا جو قومی اسمبلی میں ہوا۔ سپیکر اسمبلی اپنے فرائض کی بجائے اپنی سیاسی جماعت کے فرائض دینے پر مجبور ہوگئے۔ جب تک الیکشن ہوتا ہے اس وقت تک ایک ممبر اپنی پارٹی کا خیر خواہ ہوتا ہے مگر جب وہ کسی وزارت یا کسی اور عہدے مثلاً سپیکر یا صدر مملکت بنتا ہے تو پھر سیاسی جماعت کی بجائے اس کو مملکت پاکستان کا خیر خواہ ہوناچاہیے کیونکہ وہ حلف اٹھاتے ہوئے وعدہ کرتا ہے کہ میںمملکت پاکستا ن کا وفادار رہونگامگر یہ سب سیاستدان ملک کی بجائے اپنی اپنی پارٹی سے وفا داری کرتے ہیں اور جو بیوفا ہوجائے اس کو لوٹے کا نام دے دیا جاتا ہے۔ایسا ہی کچھ پنجاب اسمبلی میں ہوا ۔
20کے قریب پنجاب اسمبلی کے لوگوں نے پارٹی سے بیوفائی کرتے ہوئے پی ڈی ایم کی حمایت کردی جس کو عدلیہ نے غلط قرار دے کر ان کو نااہل قرار دے دیا۔پنجاب حکومت نے ان سیٹوں پر دوبارہ الیکشن کرایا اور تحریک انصاف نے اپنی ہی 20 سیٹوں میں سے 15 سیٹیں واپس لیں اور چار سیٹوں پر شکست کھا لی مگر شور شرابا ایسے کیا جیسے کتنا بڑا معرکہ مار لیا ہو۔ پنجاب میں وزیراعلیٰ کا الیکشن ہونا تھا اس لیے یہ ضمنی الیکشن دونوں پارٹیوں کے لیے بہت اہم تھا اور اس الیکشن کے بعد تحریک انصاف نے اپنے حلیفوں کی مدد سے مطلوبہ تعداد پوری کرلی اور وہ پُر امید تھے کہ اپنے امیدوار کو بآسانی وزیراعلیٰ پنجاب کی سیٹ پر بیٹھا دیں گے مگر کسی کو کیا پتہ کہ یہ سیاست کتنی گنداکھیل ہے کہ اس میں کچھ بھی حرف آخر نہیں۔ جو سیاستدان جتنا بڑا یوٹرن لے گا وہ اتنا ہی پاپولر سیاستدان بن جائے گا۔
بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی کا ایک فقرہ بڑا مشہور ہوا تھا کہ’’ ڈگری ڈگری ہوتی ‘‘اسی طرح سیاست سیاست ہوتی ہے ۔ چاہے اس میں اپنے خاندان کوکیوں نا زیر زبر کرنا پڑے۔ پنجاب اسمبلی کا الیکشن بڑی تگ و دوکے بعد مکمل ہوا اور نتائج کا وقت آپہنچا۔ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست مزاری نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ پرویزا لہی صاحب نے 186 ووٹ لیے اور حمز شہباز صاحب 179 ووٹ حاصل کیے مگر کامیاب امیدوار حمزہ شہباز ٹھہرے۔اسکی سب سے بڑی وجہ ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت بنے جنہوں نے ڈپٹی سپیکر کو خط لکھا کہ میری پارٹی پی ٹی آئی کے امیدوار کو ووٹ نہیں دے گی اور اگرکوئی ممبرووٹ کاسٹ کرے تواس کو شمار نہ کیاجائے۔ جس کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈپٹی سپیکر دوست مزاری نے حمزہ شہباز کو کامیاب قرار دیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں کب تک یہ ڈرٹی سیاست کا کھیل کھیلا جاتا رہے گا کیوں یہ سیاستدان ایک دوسرے کا منڈیٹ قبول نہیں کرتے؟ یہ اپنے مفاد کے لیے کب تک عوام سے قربانی لیتے رہیں گے؟یہ جو سیاستدان پارٹیاں بدل بدل کر ہم پر مسلط ہوتے ہیں ان کے خلاف کیوں قانون سازی نہیں ہوتی؟یہ سیاستدان کبھی پاک فوج ، کبھی عدلیہ اور کبھی اسٹبلشمنٹ کو بدنام کرتے ہیں مگر اپنی طرف نہیں دیکھتے جوپارٹیاں بدل بدل اقتدار کے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان کے مفاد کیلئے ہر ادارے اور ہر سیاستدان کو سوچنا ہوگا اور اپنے ملک کو سری لنکا بنانے کی دھمکی دینے کے بجائے اس کو پوری دنیا میں طاقتور ملک بنانا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کے تمام خیر خواہوں کو ہدایت دے اور ہمارا ملک دنیا میں سب عظیم ملک بن جائے ۔ آمین