ملک جس بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا بھی آسان نہیں لگتا کہ یہ جمہوری مملکت ہے اور یہاں کونسا قانون ہے ۔ کونسا ادارہ سپریم اور کس کی بات حرف آخر ہے ؟ اس ضمن میں مجھے ایک کہانی یاد آگئی شاید اسے پڑھنے کے بعد بہت سے سوالات کے جواب مل جائیں! ایک بادشاہ کو منفرد سوال نے بہت پریشان کیا کہ عورت کس حال میں خوش رہتی ہے اور آخر کیا چاہتی ہے؟ اعلان کروادیا گیا کہ "جو ہمارے سوال کا جواب لائے گا اسے منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔"جہاں بہت لوگ انعام کے لالچ میں حاضر ہوئے وہاں ایک عالم بھی چلا آیا ۔بحرحال جب بادشاہ نے عالم سے سوال کیا کہ بتاو "عورت آخر چاہتی کیا ہے۔ عالم نے بادشاہ سے کچھ ماہ مہلت مانگی چناچہ ایک سو دن کی مہلت دی دے دی گئی پھر عالم بستی بستی نگر نگر گھوما مگر کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ مدت مہلت ختم ہونے والی تھی تو کسی نے کہا کہ دور جنگل میں چڑیل رہتی ہے، وہ تمہارے سوال کا جواب دے سکتی ہے۔عالم گھبرایا تو بہت مگر پھانسی چڑھنے کے خوف نے اسے جنگل میں پہنچا دیا۔ چڑیل نے کہا کہ میں تم سے شادی کی شرط پر سوال کا درست جواب دونگی ۔ یہ یاد رکھنا کہ میں آدھے دن میںپری کی شکل میں نظر آئوں گی ! پری کو جواب ملا ’’جب تمہارا دل کرے پری بن جانا اور جب دل کرے تو چڑیل ‘‘
بات سن کر چڑیل بہت خوش ہوئی اور اْس نے خوش ہو کر کہا کہ چونکہ تم نے مجھے اپنی مرضی کی چھوٹ دی ہے، اس لئے ہمیشہ پری بن کے رہا کروں گی اور یہی تمہارے سوال کا جواب ہے۔یعنی عورت ہمیشہ اپنی مرضی کرنا چاہتی ہے اگر عورت کو اپنی مرضی کرنے دو گے تو وہ پری بن کر رہے گی نہیں کرنے دو گے تو وہ چڑیل بن جائے گی … ہمارے ملک میں نظام ریاست بھی ایسوں کے ہاتھ میں ہے جو اپنی عادات و اطوار میں اس کہانی کے کردار جیسے ہیں اس کی مرضی مطابق چلو تو اقتدار کی حفاظت ہوگی ۔عورت کی فرمائشیں پوری کرتے کرتے مرد بوڑھا ہوجاتا ہے جیسے عوام ٹیکس
بھرتے بھرتے کمر توڑ بیٹھے مگر ان کی زندگی بوسیدہ ہی رہتی ہے۔ اپریل 2022 میں خان صاحب کو مسند اقتدار سے اتار دیا گیا تھا اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کل کا سورج خان صاحب کے سر پہ عوامی نمائندگی کا تاج رکھ کر طلوع ہوگا ۔ خود عمران خان کو بھی یہ امید نہ تھی کہ عوام ان کے لئے اس طرح اٹھ کھڑے ہوںگے ایک غیر مقبول ہوتالیڈر اچانک اتنا مقبول ہوگیا کہ اس نے بڑے بڑے برج ہلا دئیے۔ ایک تاثر ہے کہ ہمارے یہاں جو بھی سیاست میں آیا اس نے صرف اپنی خواہش کے آگے خود کو مجبور پایا۔ کئی سیاست دانوں نے خواہشات کی تکمیل کے لئے ملک و قوم کا خوب نقصان کیا۔ قوم کیلئے دنیا سے قرض مانگا اورپھر اپنے بنک اکاؤنٹس بڑھائے ۔ عمران خان نے عام آدمی کی بات کی اور عوام کی سہولت کے لئے مختلف اقدامات کئے جیسے کہ صحت کارڈ، احساس پروگرام سے مالی کفالت اور نیا پاکستان جیسے منصوبے جو کم آمدن والے طبقات کے لئے امید کی کرن بنے تو عمران خان پر رعایاکا اعتماد بڑھتا چلا گیا ۔گو کہ معاشی صورتحال ایسی اچھی نہ تھی مگر ایک بات واضح تھی کہ عوام عمران خان کو ایمان دار سمجھتے تھے۔ عوام کی نگاہ میں یہی وہ بنیادی فرق ہے جو عمران خان کو دوسرے سیاستدانوں سے ممتاز کرتا ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو احتساب کے نعرے سے دست بردار نہ ہونے کی سزا دی گئی ۔ اب دیکھیںحال ہی میں پنجاب اسمبلی کی جو کاروائی ہوئی اس نے عوام کو مزید نالاں کیا اور عوام وزیر اعلی پنجاب کی سیٹ پر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف سراپا احتجاج نظر آئے۔
مختصرا احوال یوں ہے کہ پنجاب اسمبلی کی 371 میں سے 20 سیٹیوں پر ضمنی انتخابات کا عمل ہوا جس میں تحریک انصاف نے واضح برتری لی اور 22 جولائی کو پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلی کے چناو پر ووٹنگ ہونی تھی۔ تحریک انصاف کے پاس 176 اپنے ووٹ موجود تھے جبکہ ان کا وزیر اعلی کا امیدوار چوہدری پرویز الہی تھے جن کے پاس اپنے 10 ووٹ موجود تھے جس کے بعد کل تعداد 186 بنتی تھی جو درکار ووٹ سے تجاوز کررہی تھی دوسری جانب مسلم لیگ ن کے پاس کل تعداد 179 تھی۔ اگر قانون کے مطابق کاروائی کا فیصلہ کیا جاتا تو چوہدری پرویز الہی پنجاب کے وزیر اعلی منتخب ہوجاتے لیکن ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے ووٹنگ کے عمل کے بعد ق لیگ کے 10 ووٹ مسترد کرتے ہوئے حمزہ شہباز کو منتخب وزیر اعلی پنجاب قرار دے دیا۔دوست مزاری جو پی ٹی آئی کی سیٹ سے جیت کر آئے تھے اور بعد ازاں منحرف ہوگئے۔ ان کا جھکاؤ پہلے ہی عمران خان مخالف جماعتوں کی۔جانب تھا۔اس فیصلے نے ان کی اپنے عہدے پر رہنے کی اہلیت پر بھی سوالیہ نشان بنادیا ہے۔ ڈپٹی اسپیکر نے 10 ووٹ مسترد کرنے کے لئے اس خط کو جواز بنایا جو چوہدری شجاعت حسین کے بطور سربراہ مسلم لیگ ڈپٹی اسپیکر کو لکھا۔ جس میں انہوں نے اپنے تمام اراکین کو یہ ہدایات جاری کیں تھیں کہ وہ ن لیگ کے امیدوار حمزہ شہباز کو ووٹ دیں گے۔ ساتھ ہی دس ممبران کے نام بھی درج کئے ہوئے تھے جو چوہدری پرویز الہی کو ووٹ دینا چاہتے تھے۔ڈپٹی سپیکر نے اس غیر آئینی عمل کو سپریم کورٹ کے ایک سابقہ فیصلے سے منسوب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ق لیگ کے دس ممبران کے ووٹ مسترد کردئیے کیونکہ انھوں نے اپنے پارٹی سربراہ کی ہدایات کے برعکس ووٹ دیا تھا۔کل شب پہلے پی ڈی ایم رہنماوں نے پریس کانفرنس کرکے فل بنچ تشکیل دینے کی ڈیمانڈ کردی جس کی بظاہر ضرورت نہ تھی مگر صاف ظاہر ہے یہ ڈیمانڈ حمزہ شہباز کی ٹرسٹی وزیر اعلی کی پوزیشن کو زیادہ سے زیادہ وقت دلوانے کے لئے ہے۔ لیکن عدالت نے ان کی یہ درخواست مسترد کرکے خود کو بھی ان شہیدوں میں شامل کردیا جن کے متعلق مشہور ہے انگلی کٹوا کر شہیدوں میں شامل ہوئے۔پاکستانی عوام کے لئے ٹرسٹی وزیر اعلی کا لفظ اور یہ سیاسی منظرنامہ کسی مخمصے سے کم نہیں ۔ہم نے بھی کبھی ایسی کوئی روایت نہ سنی اور نہ دیکھی تھی۔ عجیب تماشہ ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا۔اس ضمن میں سب سے دلچسپ بیان چوہدری شجاعت کا تھا جنہوں نے خط کی بابت کہا کہ میرا اداروں کے ساتھ 30 40 سال سے تعلق رہا ہے، اداروں پر تنقید کرنے والوں کی کیسے حمایت کر سکتا ہوں۔تو بات پھر ایک بار اسی چڑیل کی طرف مڑگئی جو ہر مرحلے پر عوام کا خون پینے کو کھڑی نظر آتی ہے۔ 75 سال سے ہم کبھی’’ چڑیل تو کبھی پری‘‘ کے فیصلوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں