سنی سنائی باتوں کو بغیر تحقیق آگے نہ پھیلائو

سیدھی اور سچی بات کرو (الاحزاب 70-)جھوٹی بات سے بچو(الحج30-)اور بڑی سختی سے منع کیا گیا ہے کہ سنی سنائی باتوں کو بغیر تحقیق آگے نہ پھیلائو مگر ہم نے مذہب کو نماز روزے حج زکوۃ تک محفوظ کر لیا ہے تعلیم و تربیت ہمیشہ سے اکھٹے استعمال ہوئے لیکن ہمیں گھرو ں اور تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کا درس تو دیا جاتا  ہے مگر تربیت کا شدید فقدان ہے ۔جھوٹ بولنے کو نہ جرم سمجھا جاتا ہے اور نہ اسے معاشرتی برائی سمجھا جاتا ہے پھر ہمارے بچے وہی سیکھیں گے جو ہمارے گھروں درسگاہوں اور معاشرے کے اندررواج بن چکا ہے۔ہم سب آنیوالی نسلوں کو کیا سکھا رہے ہیں جن معاشروں میں جھوٹ جیسی لعنت پروان چڑھ رہی ہو ان کا مستقبل تاریک تر ہوتا ہے۔ معاشرے کے ہر طبقے میں جھوٹ اتنا سرائیت کر چکا ہے کہ اب اس سے اخلاقی برائی یا جرم نہیں سمجھا جاتا۔اپنی عدالتوں میں چلے جائیں آپ کو کرائے کے گواہ مل جائیں گے جن کا کام صرف جھوٹ بولنا ہے۔آپ کے وکیل صاحبان آپ کا خود ان سے تعارف کروائیں گے اور حیرانگی کی بات ہے کہ جج صاحبان کے پاس یہی کرائے کے گواہ مختلف کیسز میں ہر تیسرے دن پیش ہوتے ہیں اور ان کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہو تا۔آپ تھانے میں چلے جائیں خود تھانے والے آپ سے درخواست میں ایسی باتیں شامل کروائیں گے جو جھوٹ پر مبنی ہونگی پھر انصاف بھی جھوٹا ہی ہو گا۔آپ بازار میں چلے جائیں پہلے ہر طرف آپ کو بھکاری ملیں گے ہر کوئی اپنی درد بھری جھوٹی داستاں سنائے گا جس دکاندار کے پاس جائیں گے وہ اپنا مال بیچنے کیلئے بے شمار جھوٹ بولے گاآپ کو بڑے سے بڑے آدمی سے لے کر ایک بھکاری اور مزدور تک ہر دوسرا آدمی اپنی بڑائی کیلئے یا مالی فائدہ حاصل کرنے کیلئے جھوٹ بولتا نظر آئے گا۔
اس وقت ہمارے معاشرے کو سب سے زیادہ  میڈیا متاثر کر رہا ہے جہاں صرف اپنی ریٹنگ بڑھانے کیلئے بغیر تحقیق کے بریکنگ نیوز چل جاتی ہیں .کسی کے سچ کو جھوٹ میں بدلنااور جھوٹ کو سچ کا رنگ دینا ان کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔اس سب میں چینلز کے مالکان اور حکومتی اداروں کا مکمل عمل دخل ہے آزادی رائے یا آزادی اظہار کے الفاظ صرف پڑھائے اور کہے جاتے ہیں اب تو اتنا جھوٹ بولا جاتا ہے کہ سچ کا گمان ہونے لگتا ہے اسی کو جھوٹا سچ کہتے ہیں۔الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا والے شائد یہ نہیں جانتے اور سمجھتے یا سمجھنا نہیں چاہتے کہ اس سے ہمارے معاشرے میں کتنا بگاڑ پیدا ہو رہا ہے سیاستدان خود اور ان کے ترجمان بھی اس دوڑ میں شامل ہیں ان کے ترجمان اپنے قائدین کو خوش کرنے کیلئے اپنے مخالفین پر وہ وہ الزامات لگاتے ہیں کہ عام انسان تو کیا ان کے اپنے قائدین بھی کہتے ہونگے کہ ــ"ہتھ ہولا رکھو بھائی"بغض اور حسد اور زہریلے الفاظ سے بھرپور پریس کانفرنسز سنیں تو شیطان بھی توبہ توبہ کرتا ہے ۔ہمارے ملک میں پولارئیزیش اس حد تک ہمارے معاشرے میں بڑھ چکی ہے کہ مخالف پارٹی کا سچ بھی جھوٹ اور جھوٹ بھی سچ لگنے لگا ہے سچ بولنے والوں کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔خاص اگر آپ حکومت کے خلاف سچی اور حقیقت پر مبنی بھی تنقید کریں گے توخدشہ ہے کہ حکومتی نمبروں سے پیار بھرے ٹیلیفون تو ضرور آئیں گے تو اگر حکم نہ مانا تو ایک دوایف آئی آرکا سامنا تو ضرور کرنا پڑے گا اور دوسری طرف جھوٹ اور چاپلوسی کرنے والوں کو انعامات سے نوازا جاتا ہے تو پھر کیا انسان سچ بولنا چھو ڑ دے؟جو بات بھی آدمی اپنے منہ سے نکالتاہے اس کو علم ہوتا ہے کہ وہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ دکھ اس بات کا ہے اس کے منہ پر نہ تو شرمندگی کا تاثر ہو تا ہے اور نہ اسے پشیمانی ہوتی ہے ان لوگوں میں ہمارے بہت سے سیاسی لیڈران بھی ہوتے ہیں۔یہ سب لوگ جن میں کوئی دولت کی خاطر کوئی حوس اقتدار کی خاطر کوئی ذاتی مفاد کیلئے جھوٹ بولتے ہیں خدا کی ذات پر شائد کسی کو یقین نہ رہا کہ سب کچھ تو دینے والی وہی ذات ہے اور وہی انسان کو زندگی اور موت دیتا ہے رزق بھی وہی دیتا ہے اور عزت ذلت بھی اسی کے ہاتھ میں ہے تو پھر جھوٹ کو سہارا انسان کیوں لے ۔

ای پیپر دی نیشن