امیر محمد خان
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جُدا ہوتے نہیں
تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
کسے معلوم تھا کہ 3اپریل 1928 ء کو دنیا میں قدم رکھنے والا خوبصورت انسان برصغیر میں آسمان صحافت کا ایک نہ ڈوبنے والا ستار ہ ہے جسکا نام مجید نظامی ہے ۔ آج پاکستان کی صحافت میں وہ نام جنکا نام ایک معتبر صحافی کے طور پر لیاجاتا ہے ان میں اکثریت اس دنیا فانی سے کوچ کرچکی ہے اور کچھ ایک ایماندار صحافی ، کالم نگار حیات ہیں اللہ تعالی انکی عمریں دراز کرے اور کسی بھی لکھاری کو انکے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے ( آمین ) ڈاکٹر مجید نظامی نے اپنے بھائی بانی نوائے وقت حمید نظامی کی وفات کے بعد لندن سے آکر نوائے وقت جیسے تناور درخت کی باگ ڈور سنبھالی اوراپنے مرحوم بھائی کی پالیسی پر چلتے ہوئے نوائے وقت صحافت کیلئے ایک درسگا ہ کا درجہ دیا ، پاکستانی صحافت میں کوئی بھی معتبر نام لے لیں اسکی درسگاہ نوائے وقت ہی رہی ۔مجید نظامی جنکے افکار اور خیالات ، پاکستان کی نظریات سرحدوںکے محافظ کے طور پر دل نہیں مانتا کہ انکے ساتھ مرحوم لکھا جائے چونکہ مرحوم تو ایک جسم ہوتا ہے،جبکہ افکار اور خدمات رہتی دنیا تک زندہ رہتے ہیں ،میں ان کے احسانات، اور شفقت کا ایک معمولی کارکن ہوں، نہ جانے ایسے کتنے احسانات اس شخصیت نے دنیا میں کئے ہونگے ۔ میں کراچی میںانگریزی اخبار ’’دی سن ‘‘ میں ملازمت کے دوران اخباری کارکنوںکی ٹریڈ یونین سرگرمیوںکا حصہ بن گیا ، ضیاء مارشل لاء میں تحریک آزادی صحافت میں پریس کلب سے گرفتار ہوا چار ماہ ضیاء الحق کی مہمان نوازی میں کراچی ، حیدرآباد اور خیر پور جیل میں مرحوم منہاج برنا اور بیشمار صحافیوں ، طلباء ، مزدورں کے ساتھ جو اس آذادی صحافت کی تحریک میں ہمسفر تھے ۔ رہائی جسکی طویل کہانی وہ یہاںموضوع نہیں ، بے روزگار تھا ، کراچی سے نوائے وقت کا آجراء ہوا جس میں پہلی ملازمت کی ، کچھ عرصے بعد مرحوم محترم عارف نظامی سے سرسری ملاقات ہوئی ، کچھ عرصے بعد محترم مجید نظامی سے ملاقات ہوئی انہوںنے میرا نام پوچھا ( جو اس وقت آزادی صحافت کی تحریک کی بناء معروف تھا ) میں نے نام بتایا ، شفقت سے انہوںنے کہا کہ ’’امیر محمد خان ، یہ نام کچھ سنا سنا سا لگ رہا ہے شائد انہیں توقع تھی کہ میں اپنی رام کہانی سنانا شروع کردونگا میں آزادی صحافت کی تحریک میں بڑے تیر مار کر آیا ہوں ، اب یہ کہانی انکے سامنے بے معنی تھی ۔ میں نے جواب دیا کہ ’ جناب امیرمحمد خان مغربی پاکستان کے گورنر رہ چکے ہیں نام کی مماثلت ہے شائد اس لئے آپکو سنا سنا لگ رہا ہے ۔ اسکا انہوںنے کوئی جواب نہیں دیا ، سرسری ایک ملازم سے جو سوالات کئے جاتے ہیں وہ کئے میں نے کام شروع کردیا کچھ عرصے 1300 روپئے ماہانہ کام کیا ، پھر سعودی عرب آگیا ،جب عمرہ کی ادائیگی میں یہ عظیم شخصیت جنت کی رانی انکی بیگم ریحانہ مجید نظامی اورننھی رمیزہ کے ساتھ آئے تو مجھے یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ میرے گھر جدہ میں رہائش پذیر ہوئے دن رات ان سے بات چیت ہوتی رہی اور سیکھنے کو ملا،پہلی دفعہ جب پاکستان روآنہ ہونے لگے تو ہوائی اڈے پر انہوںنے مجھ سے پوچھا کہ آپ خبروںکیلئے بھاگ دوڑ کرتے ہیں اپنا محنتانہ طے کرلیں، میں نے جواب دیا کہ ملازم کا محنتانہ مالک طے کرتا ہے ، وہ پاکستان چلے گئے کچھ عرصے بعد شعبہ حسابات سے خبرآئی کہ اپنا بنک اکائونٹ نمبر بھیج دیں اس طرح محنتانہ طے ہوگیا۔ کئی دفعہ جدہ آئے اور اعزاز بخشا کہ میرے غریب خانے میںرہے ۔ میری ملازمت جدہ کی ایک کمپنی سے ختم ہوئی ، انکی بیگم ایک گروپ کے ہمراہ عمرہ کیلئے تشریف لائیں ،میری بیگم کی ان سے ملاقا ت ہوئی شائد میری ملازمت کے خاتمے کا ذکر بھی ہوا ، ایک ہفتے بعد مجھے محترم نظامی صاحب کا فون آیا اسوقت میری ایک بیٹی پاکستان میں تعلیم حاصل رہی تھی، نظامی صاحب نے کہا سنا ہے آپکی ملازمت ختم ہوگئی ہے گھر کیسے چل رہا ہے میں نے کہا اللہ کی مہربانی ہے ۔ پھر سوال کیا کہ آپکی ایک بیٹی پاکستان میںپڑھ رہی ہے اس کے اخراجات اورفیس کا کیا سلسلہ ہے ؟؟اپنی بیٹی سے کہیںمجھے فون کرے ، مجھے پتہ تھا کہ وہ اخراجات پر بات کرینگے ۔ میں نے بیٹی سے کچھ نہ کہا ، ایک ہفتہ بعد پھر فون آیاکہ اپکی بیٹی کا فون نہیں آیا میںنے کہا کہ نظامی صاحب آپ مطمین رہیں اللہ کا شکر ہے اخراجات کو کوئی مسئلہ نہیں، اس بات چیت کے بعد مجھے ایک دن بعد نوائے وقت کے شعبہ حسابات سے فون آیا کہ ایم ڈی صاحب نے آپکا محنتانہ دوگناہ کردیا ہے اور آئیندہ دوسال کا ایڈوانس آپکے اکائونٹ میں جمع کرادیا ہے ۔ میں یہ سنکر روئے بغیر نہ رہ سکا اس عظیم شخصیت کے لئے میں کچھ نہیںمگر میرا کتنا خیال ہے ۔ سابق وزیر اعظم میاںنواز شریف جدہ میں جلاوطنی گزار رہے تھے ، مجیدنظامی صاحب عمرہ کیلئے تشریف لائے جدہ کے ہوائی اڈے پر میاںنواز شریف ، میاںشریف ، حسین نواز وہ دیگر انکے استقبال کیلئے آئے ، نظامی صاحب کا سامان میاں بردران نے اپنی گاڑی میں رکھوادیا ۔ ہوائی اڈے پر ملاقات کے بعد نظامی صاحب نے مجھ سے کہا ’’خان صاحب چلیں ؟؟میںنے بتایا کہ آپکا سامان میاں صاحبان نے اپنی گاڑی میٰں رکھا دیا ہے ، انہوںنے میں شہباز شریف کو بلا کر کہا کہ آپکی آمد کا شکریہ مگر میںامیر محمد خان کے ساتھ جائونگا ،سامان انکی گاڑی میں رکھا دیں میں عمرہ کے بعد ملاقات کیلئے جائونگا ،مجید نظامی صاحب کی اس بات کے بعد مجھے اپنا قدم آسمان کے برابر نظر آیا کہ انہوںنے کنتی شفقت کی ہے ۔ ایک دفعہ نوائے وقت کے اجراء کا فیصلہ سعودی عرب کے ایک ادارے کاساتھ کام کرکے فیصلہ ہوا ، نظامی صاحب سے جدہ میںنوائے وقت کے دفتر افتتاح ان سے کرایا گیا ، مجھے یہاں موصول لوگوںنے دعوت نہیں دی۔ افتتاح سے واپسی پر نظامی صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ آپ وہاںنہیں آئے میں نے بتایا کہ اس ادارے کے کچھ لوگ مجھ سے خفا ہیںمجھے نہیں بلایا گیا تھا ایک ہفتہ بعد نظامی صاحب نے اس ادارے کو خط لکھا کہ ’’ آپ نے ہمارے نمائیندے کو دعوت نہیں دی، آپ نے اسے عزت نہیں دی ہم آپکے ساتھ کاروبارنہیںکرسکتے اس پراجیکٹ کو ختم سمجھیں ، اس ادارے نے نوائے وقت کو ایک کروڑ روپیہ ضمانت جمع کرائی تھی وہ بھی واپس کردی۔ مجھ پر احسانات اور میری عزت آفزائی کی بے شمار کہانیا ں ہیں جو ان دوصفحات پر نہیںآسکتیں ۔ مجھے انہوںنے اس طرف راغب کیا کہ آپ کالم لکھیںنوائے وقت میں خبریں لکھنے سے صحافی مکمل نہیںہوتا ۔ میرے محسن میری ساری دعائیںآپکے لئے ہیں ۔ آپ مرحوم نہیں ۔