قومی افق ……… ندیم بسرا
شنید ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا نام بطور نگران وزیراعظم ان خدشات کی بنا پر تجویز کیا ہے کہ نئی وجود میں آنے والی سیاسی جماعتوں کے حلقوں میں گفت و شنید عام ہے کہ انتخابات اگر اکتوبر، نومبر2023ء میں ہوئے تو ان کے ہاتھ سے اقتدارسرک جائے گا۔ حالیہ وجود میں آنے والی سیاسی جماعتیں مقتدر حلقوں سے پھر فیصلہ کروانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ انہیں سیاسی قد کاٹھ بڑھانے کے لئے کچھ وقت مہیا کیا جائے کیونکہ عام انتخابات میں وہ کسی سے سیاسی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں چاہتے۔ ایوان اقتدار میں ہونے والی یہ سرگوشیوں کے پیش نظر میاں نواز شریف، اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے دی جانے والی اپنی تجویز کو نگران وزیراعظم معاشی منیجر ہونا چاہئے تاکہ آئی ایم ایف سے ڈیل میں کوئی کوتاہی نہ برتی جا سکے، عام انتخابات کے بعد نگران حکومت کا معیشت پر …… ٹھوس کام خوشحال پاکستان کی ضمانت ہو۔ اس تجویز کو مدنظر رکھتے ہوئے بہترین ماہر معاشیات اسحاق ڈار کا نام بطور نگران وزیراعظم تجویز کیا تھا تاکہ انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی حکومت کو معاشی بدحالی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اسحاق ڈار بطور اکنامک …… دنیامیں اچھی پہچان کے حامل شخصیت ہیں۔ سیاسی حکومتی اتحادی پارٹیاں ان کی پیشہ وارانہ، ماہرانہ خدمات کو پس پشت ڈال کر میاں نوازشریف سے اُن کی قربت کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہیں۔ اسحاق ڈار بطور اکنامک ماہر اسٹیبلشمنٹ کو بھی قابل قبول ہیں کیونکہ مقتدر حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ مفتاح اسماعیل نے بطور وزیر خزانہ معاشی پالیسی اچھے طریقے سے نہیں چلا سکے تھے۔ اسحاق ڈار نے واپس آکر ملک میں نہ صرف ڈالر کی اڑان کو روکا ہے بلکہ سخت مشکل حالات سے اُس وقت پاکستان کی معاشی پالیسی ترتیب دی جب ہر طرف سے پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا کی آوازیں آرہی تھیں۔ نگران وزیراعظم بطور اسحاق ڈار پر اعتراض کیا جا رہا ہے کہ وہ سینیٹر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ سینیٹر کو نگران وزیراعظم اس لئے نہیں بنایا جا سکتا کہ آئین اور قانون میں واضح درج ہے کہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ شخصیت کو نگران عہدہ نہیں دیا جاسکتا بطور قانون آئین کے ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے میں یہ سمجھتا ہوں کہ آئین و قانون ہی صرف ایک شق واضح درج ہے کہ موجودہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کسی شخصیت کا بھی متفقہ طور پر نگران مدت کے لئے تقرر کر سکتے ہیں اس میں قانون و آئین میں کوئی قید موجود نہیں ہے اگر میں آپ کو ماضی کے جھروکوں میں لے جاؤں تو یاد آجائے گا کہ محمد میاں سومرو بطور سینیٹر خدمات انجام دے رہے تھے انہیں بھی نگران وزیراعظم بنایا گیا تھا جنہوں نے صاف شفاف انتخابات کا انعقاد بھی کروایا تھا۔