جناب شیخ کا اصل نقش قدم

Jul 27, 2023

عبداللہ طارق سہیل

لارڈ آف بکٹ نے یہ کہہ کر سبھی کو ورطہ عبرت (حیرت نہیں، وہ تو کب کی رخصت ہو چکی) میں ڈال دیا کہ 27 جولائی ، سال گزشتہ، کو انہوں نے جلسے میں جو کاغذ لہرایا تھا وہ سائفر نہیں تھا۔ سائفر نہیں تھا پھر وہ کیا تھا، کیا بجلی کا بل، یا باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا وہ آرڈر جس پر دستخط کرنے سے پہلے ان کا راج پاٹ چلا گیا ؟
27 جولائی کا جلسہ، بہرحال، سب کو یاد ہے کہ بطور وزیر اعظم ان کا آخری جلسہ تھا اور اس میں انہوں نے ایک کاغذ جیب سے نکال کر اپنے کلٹ فالورز کو دکھایا تھا کہ یہ سائفر ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بیرونی مداخلت اور سازش کے بل پر میری حکومت ختم کی جا رہی ہے۔ اسی سائفر کے بعد تحریک عدم اعتماد لائی گئی ہے اور اس سائفر میں آرڈر کیا گیا ہے کہ میری حکومت ختم کرو ، وزیر اعظم تو میں ہوں ، پھر یہ آرڈر کسے کیا جا رہا ہے۔ 
بعدازاں وزیر اعظم نے بطور وزیر اعظم، پھر بطور سابق وزیر اعظم کئی ماہ تک سائفر کا غل مچائے رکھا، ہر روز یہ دہائی مچاتے کہ سائفر کے آنے کے اگلے روز ہی تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی (حالانکہ یہ تحریک ایک مہینہ پہلے آئی تھی اور اس کا اعلان چھ ماہ پہلے کر دیا گیا تھا)۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ جو کاغذ لہرایا، وہ سائفر نہیں تھا۔ ممکن ہے اگلے کسی انٹرویو یا قوم سے یو ٹیوبائی خطاب میں یہ بھی انکشاف فرما دیں کہ جس نے کاغذ لہرایا، وہ میرا ہم شکل روبوٹ تھا جو نواز شریف نے لندن پلان کے تحت امریکہ سے تیار کر کے بھیجا تھا، خطاب بھی اسی نے کیا، خط بھی اسی نے لہرایا، میں تو وزیر اعظم ہائوس میں چین کی نیند سو رہا تھا۔ مجھے تو اس جلسے کا پتہ اگلے روز چلا۔
_____
یاد آیا، اس جلسے کے فوراً بعد مریم نواز صاحبہ نے کہا تھا کہ موصوف نے جو خط لہرایا، وہ سائفر نہیں تھا۔ اس پر پی ٹی ٹی آئی بہت برہم ہوئی۔ ٹی وی پر تشریف فرما ایک شو پیس نے طعنہ بھی دیا کہ مریم صاحبہ کو وحی آئی ہے کہ یہ سائفر نہیں تھا۔ 
خیر، سائفر ڈرامہ جب ایکسپائر ہوا تو موصوف نے اعلان کیا کہ امریکہ سے کوئی سازش نہیں ہوئی، ساری سازش با جوے نے کی ، پھر کہا کہ زرداری اور شہباز نے کی، پھر کہا حسین حقانی نے کی۔ 
برسبیل تذکرہ، حسین حقانی نے اس دعوے کو الزام قرار دے کر موصوف پر بھاری ہرجانے کا کیس کر دیا ہے۔ اب پتہ نہیں، موصوف امریکی عدالت کے بلانے پر وہاں جاتے ہیں یا نہیں اور اگر جاتے ہیں تو بالٹی ہمراہ ہو گی یا اس کے بغیر ہی جائیں گے۔ 
_____
یہ معاملہ ، جیسا کہ لکھا، ورطہ عبرت کا ہے۔ تصدیق کے بعد تردید، تردید کے بعد تصدیق کا سلسلہ 35 پنکچرز والی کہانی سے شروع ہوا تھا۔ حلفیہ بیان دینے کے انداز میں سو سے زیادہ خطابات کئے گئے کہ 35 سیٹوں پر دھاندلی کر کے ہمیں ہرایا گیا، ہمارے پاس ثبوت ہیں، آزادانہ تحقیقات ہو تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ تحقیقات ہوئیں،کچھ ثبوت نہ دکھایا چنانچہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی نہ ہو سکا، بالآخر ایک دن یہ بیان دے کر کہ 35 پنکچر والا بیان تو محض سیاسی بیان تھا، خود ہی دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دیا بلکہ دودھ کو بھی پانی کر دیا۔ 
وہ سیاسی بیان تھا تو ’’سائفر‘‘ لہرانا کیا تھا؟۔ رحونیاتی بیان؟ 
_____
لارڈ آف بکٹ نے سپریم کورٹ کے کمرے میں تشریف فرما ہو کر اسٹیبلشمنٹ کے اگلے عزائم بھی منکشف کر ڈالے۔ فرمایا وہ پارٹی توڑنے میں ناکام ہو چکے اور اب اسی وجہ سے ملک توڑنے پر تل گئے ہیں۔ 
یعنی پارٹی ٹوٹنے میں ابھی کسر باقی رہ گئی ہے۔ اگلے سانس میں فرمایا کہ نگران حکومت بنتے ہی اسٹیبلشمنٹ کا موڈ بدل جائے گا اور وہ یوٹرن لے لے گی یعنی ملک توڑنے کا ارادہ واپس لے لے گی…خوشخبری!
_____
نگراں حکومت سے یاد آیا، وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ نگراں حکومت کو 60 نہیں، 90 روز کے لیے ہونا چاہیے۔ 
قرائن یہی ہیں کہ نگراں سیٹ اپ 90 دن کے لیے ہی ہو گا لیکن ڈار صاحب نے یہ کہنا کیوں ضروری سمجھا؟۔ دراصل وہ اس خبر کے سچ ہونے کے انتظار میں ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ کسی جگہ ڈار صاحب کو نگران وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، تازہ بیان دے کر دراصل ڈار صاحب یہ فرما رہے ہیں کہ 90 دن کے لیے آ?نگا، 60 دن کے لیے نہیں۔ 
جب یہ خبر ’’لیک‘‘ ہوئی تو ا یک ٹی وی نے ڈار صاحب سے رابطہ کیا اور اس خبر پر تبصرہ چاہا۔ رپورٹر کو یقین تھا کہ وہ یا تو تردید کریں گے یا لاعلمی کا اظہار کریں گے لیکن ڈار صاحب نے جو جواب دیا اس نے رپورٹر کو حیران کر دیا۔ ڈار صاحب نے فرمایا، میں ہر خدمت کے لیے تیار ہوں۔ 
گویا ڈار صاحب کو اس خبر کا پہلے ہی علم تھا۔ 
ڈار صاحب کو نگران وزارت عظمیٰ کیوں چاہیے؟۔ ڈالر کو وہ پہلے ہی 288 روپے کا کر چکے۔ شاید ان کا خیال ہے کہ 300 کا ہندسہ عبور کرنے کے لیے بڑا عہدہ ضروری ہے۔ علاوہ ازیں وہ دیگر بہت سے شاندار کارنامے بھی انجام دے چکے جس کا صلہ عوام مسلم لیگ ن کے جلسوں میں ،ناخوشگوار نعرہ بازی کر کے دے ہی دیں گے۔ مسلم لیگ انتخابی مہم کیسے چلائے گی، یہ ڈار صاحب کا دردسر نہیں، وہ نگران وزارت عظمیٰ کے مزے اڑا کر لندن سدھار جائیں گے اور باقی ماندہ دن وہیں یاد خدا میں گزاریں گے۔ ادھر خلق خدا نے ابھی سے خدا کو یاد کرنا شروع کر دیا ہے۔ 
حالیہ بجٹ میں اور دیگر معاشی اقدامات میں وہ اشرافیہ کی بے لوث اور بے نظیر خدمت گزاری کر چکے اور غریب و مڈل کلاس کو کیفر کردار کو پہنچادیا۔ یہی بات انہیں زندہ جاوید رکھنے کیلئے کافی ہوگی،  انشاء اللہ۔ 
_____
ڈار صاحب نے ایک اور بیان میں کہا ہے کہ وہ روپے کی ناقدری پر ناخوش ہیں۔ 
انہوں نے البتہ ، یہ نہیں فرمایا کہ ڈالر کی قدردانی پر وہ کتنے خوش بھی ہیں۔ 
_____
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہمیں شہنشاہی اخراجات کم کرنے چاہئیں۔ یہ بات انہوں نے اپنی حکومت کے خاتمے سے محض ڈیڑھ ہفتہ پہلے کہی ہے۔ اصولاً انہیں ڈیڑھ سال پہلے یہ اعلان کرنا چاہیے تھا۔ اپنی حکومت میں انہوں نے شہنشاہ بن کر اشرافیہ کی تنخواہوں اور مراعات میں بے درپے بھاری بھرکم اضافے کئے۔ جناب شیخ کا اصل نقش قدم یہی تھا۔ 

مزیدخبریں