پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، کمزور معیشت، درآمدات کی بھرمار اور معاشی ڈھانچے میں بنیادی کمزوریاں پاکستان کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔ اس معاملے میں حکمران طبقہ آج تک کوئی واضح اور بہتر پالیسی اختیار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ آج بھی حکمرانوں کی ترجیحات میں مضبوط معیشت اور نظام میں موجود خامیوں کو دور کرنا شامل نہیں ہے۔ اس سے بھی خطرناک پہلو یہ ہے کہ دنیا میں مالی اورمعاشی اعتبار سے مضبوط ممالک میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کا سامنا کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے بھی ہم اپنی سمت درست کرنے پر کام نہیں کر رہے۔ اس سے زیادہ خطرناک چیز اور کیا ہو سکتی ہے لیکن یہاں ابھی تک ایسا کوئی ٹھوس فیصلہ نظر نہیں آتا جس بنیاد بنا کر ہم یہ کہہ سکیں کہ آنے والے وقت میں پاکستان کی معیشت بہتر اور مضبوط ہو سکتی ہے۔ امپورٹ کیسے کم کرنی ہیں اور ایکسپورٹ میں اضافہ کیسے کرنا ہے اس حوالے سے کوئی ٹھوس بات نظر نہیں آتی۔اگر انگلینڈ جیسے ملک کو معاشی طور پر مسائل کا سامنا ہے، وہاں لوگوں کی زندگی متاثر ہو سکتی ہے تو پھر ہم کس خوش فہمی میں ہیں یا پھر خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ انگلینڈ میں مظاہرے ہو رہے ہیں، لوگوں کی زندگی پر مہنگائی نے بہت شدید اثرات چھوڑے ہیں۔ لوگ سڑکوں پر ہیں۔ حکومت پر بوجھ بڑھا ہے۔ انگلینڈ کے شہری اس صورت حال میں بہت پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ اگر انگلینڈ جیسے ترقی یافتہ ملک کو ان مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تو پھر نجانے ہم کس دنیا میں ہیں۔
اعدادوشمار کے مطابق انگلینڈ میں بے گھر افراد کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، ڈیپارٹمنٹ فار لیونگ اپ، ہاؤسنگ اینڈ کمیونیٹیز کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق عارضی رہائش گاہوں میں مقیم افرادکی تعداد پچیس برس کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، رواں سال مارچ میں 105,000 خاندان عارضی رہائش گاہوں میں مقیم تھے۔ عارضی رہائش گاہوں میں مقیم بچوں کی تعداد سوا لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، بے گھر افراد کی تعداد میں گزشتہ سال کی نسبت دس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پہلی سہ ماہی میں چودہ ہزار خاندان ہوٹل یا بیڈ اینڈ بریک فاسٹ میں مقیم تھے، معمرافراد کے بے گھر ہونے کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے، گھروں کی کمی اور بڑھتے کرائے لوگوں کے بے گھر ہونے کی بڑی وجہ ہے۔
انگلینڈ میں صرف گھروں کے کرائے ہی نہیں بڑھے'زندگی گذارنے کی تمام بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں تاریخی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ حالات ہمیں سوچنے کا موقع دے رہے ہیں۔ خدانخواستہ ہم پر مشکل وقت آتا ہے تو ہم کیا کریں گے۔ ہمارے بارڈرز اور ہمسائے ایسے ہیں کہ وہ تو ایسی مشکلات میں مدد کرنے کے بجائے مشکلات میں اضافے کی کوششیں کریں گے۔ بھارت اس معاملے میں سب سے بڑا دشمن ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان پر حکومت کرنے والوں یا حکومت کی خواہش رکھنے والوں سمیت سٹیک ہولڈرز کو ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے دن رات کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو مہنگائی کی لہر کا سامنا ہے اور ہمیں ان حالات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ ہم اس لپیٹ میں آ سکتے ہیں لیکن کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں۔
پاکستان میں حالات مسلسل خراب ہو رہے ہیں۔ زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے اور ہر گذرتے دن کے ساتھ سب سے اہم چیز سب سے غیر اہم اور کشش کھو رہی ہے۔ لوگ ذہنی امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔ زندگی کی بنیادی اشیاء ہر گذرتے دن کے ساتھ مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ بجلی، گیس، پانی اور ادویات سمیت آٹا، چینی، بجلی، سبزیاں، پھل، صحت اور تعلیم کے لیے مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ ڈالر کی قیمت قابو سے باہر ہے اور اگر روپیہ مضبوط نہیں ہوتا، ڈالر نیچے نہیں آتا تو امپورٹ بل کیسے کم ہو گا۔ ڈالر کا کمزور ہونا اور روپے کی قدر میں اضافے کے بغیر بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے۔ روپے کی قدر میں اضافے کی فوری طور پر کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ہم کب تک لگ بھگ تین سو روپے کا ڈالر برداشت کر سکتے ہیں ۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں جس شدت کے ساتھ اضافہ ہوا ہے توانائی کے متبادل ذرائع کے حوالے سے کچھ کام ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سردیوں میں گیس کا بل ادا کرنا مشکل ہو گا تو ان دنوں بجلی کے بل کی ادائیگی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جب لوگوں کی ضروریات جائز ذرائع سے پوری نہیں ہوں گی تو وہ اپنا کچن چلانے کے لیے ناجائز ذرائع کی طرف جائیں گے۔ یہ حالات ملک میں کرپشن میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ لازم تو نہیں کہ ہر کوئی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتا ہے، یہ بھی ضروری نہیں کہ سب لوگ مہنگی ہوتی اشیاء میں طرز زندگی پر سمجھوتہ کریں یہ بھی تو ممکن ہے کہ لوگ طرز زندگی برقرار رکھنے کے لیے کرپشن کرنے لگ جائیں۔ ان حالات میں ناصرف ملک کا نقصان ہو گا بلکہ عام آدمی کی زندگی مزید مشکل ہو گی۔ حکمرانوں کو اپنے مقدمات کی پڑی ہے۔ ان کے اپنے مقدمات تو ختم ہو رہے ہیں لیکن عام آدمی کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ نگران حکومت آتی ہے وہ کب تک چلے گی ویسے حالات اس طرف جا رہے ہیں کہ شاید نگران اپنی مدت سے زیادہ ٹھہریں اور استحکام کی کوشش ہو۔ ان دنوں ہونے والی قانون سازی کا کوئی مقصد تو ہے اگر اس قانون سازی سے ملک میں معاشی استحکام آتا ہے تو یہ گھاٹے کا سودا ہرگز نہیں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیاست دان آنے والے چند ماہ کے دوران کیا فیصلے کرتے ہیں اور ملکی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں یا پھر سادہ لوح لوگوں پر بوجھ ڈالنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔
آخر میں ابن صفی کا کلام
رات کے پرکیف سناٹے میں بنسی کی صدا
چاندنی کے سیمگوں شانے پہ لہراتی ہوئی
گونجتی بڑھتی لرزتی کوہساروں کے قریب
پھیلتی میدان میں پگڈنڈی پہ بل کھاتی ہوئی
آرہی ہے اس طرح جیسے کسی کی یاد آئے
نیند میں ڈوبی ہوئی پلکوں کو اکساتی ہوئی
آسمانوں میں زمیں کا گیت لہرانے لگا
چھا گیا ہے چاند کے چہرے پہ خفت کا غبار
بزمِ انجم کی ہر ایک تنویر دھندلی ہوگئی
رکھ دیا ناہید جھنجھلا کے ہاتھوں سے ستار
ذرہ ذرہ جھوم کر لینے لگا انگڑائیاں
کہکشاں تکنے لگی حیرت سے سوئے جوئبار
یوں فضاؤں میں رواں ہے یہ صدائے دلنشیں
ذہنِ شاعر میں ہو جیسے اک اچھوتا سا خیال
یا سحر کے سیمگوں رخسار پر پہلی کرن
سرخ ہونٹوں سے بچھائے جس طرح بوسوں کے جال
گاہ تھمتی، گاہ سناٹے کا سینہ چیرتی
یوں فضا میں اٹھ، ہوجاتی ہے مدھم ہائے ہائے
شام کی دھندلاہوہٹوں میں دور کوئی کارواں
کوہساروں سے اتر کر جیسے میدانوں میں آئے
انگلینڈ میں بڑھتی ہوئی غربت، مہنگائی اور ہماری کمزور معیشت لمحہ فکریہ!!!!
Jul 27, 2023