اب سے تقریباً دو ہفتے پہلے پاکستان کے لیے تین بلین ڈالر کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی منظوری دے کر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹیو بورڈ نے ایک ایسا اقدام کیا جسے وزیراعظم محمد شہباز شریف سمیت حکومت میں شامل تمام افراد بہت بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ منگل کو بھی ڈیرہ اسماعیل خان میں ترقیاتی کاموں کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ ’اللہ کے فضل سے ہم ڈیفالٹ سے بچ گئے، اگر ہم دیوالیہ ہو جاتے تو باہر کے بینک ہمارے لیٹرز آف کریڈٹ (ایل سیز) قبول کرنے سے انکار کردیتے، پاکستان میں دوا اور روٹی کے لالے پڑ جاتے، صنعت کو کاری ضرب لگتی، یہ قیامت تک ہمارے ماتھے پر کالا دھبا ہوتا اور میری قبر پر بھی کتبہ لگتا کہ اس کے دورِ حکومت میں ملک دیوالیہ ہوگیا تھا۔‘ شہباز شریف نے جن لوگوں کے سامنے یہ باتیں کہیں ان کی غالب اکثریت کو ان سب باتوں پر یقین بھی آگیا ہوگا کیونکہ عام آدمی تو یہ نہیں جانتا کہ ملکوں کے معاملات کیسے چلتے ہیں اور حکومت مختلف امور کو کیسے انجام دیتی ہیں۔
عوام کی حقائق سے ناواقفیت ہمارے سیاست دانوں کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ اسی کی وجہ سے وہ انھیں اعداد و شمار کی جادوگری اور الفاظ کے گورکھ دھندے میں الجھا کر اپنے مقاصد کا حصول یقینی بناتے ہیں۔ امریکا سمیت بہت سے طاقتور ملک کئی بار معاشی عدم استحکام اور مالی بحرانوں کا شکار ہوئے لیکن وہاں پر نہ تو کسی کی قبر پر کوئی خاص کتبہ لگا کر یہ اعلان کیا گیا کہ اس کے دورِ حکومت میں فلاں بحران آیا اور نہ ہی کسی کے ماتھے پر قیامت تک کالا دھبا لگا کیونکہ وہاں معاملات کو صرف جذبات کی عینک لگا کر ہی نہیں دیکھا جاتا بلکہ حقائق کی بنیاد پر یہ جانچا جاتا ہے کہ کن حالات یا اقدامات کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے اور پھر یہ فیصلہ بھی کیا جاتا ہے کہ اب اس سے آگے کن امور میں بہتری لا کر معاشی استحکام کی طرف جایا جاسکتا ہے۔ عموماً ایسے فیصلوں پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنایا جاتا ہے تاکہ معاشی عدم استحکام پر جتنی جلد ممکن ہو قابو پایا جاسکے اور اس سلسلے میں سیاست قیادت باہمی آویزش سے گریز کرتے ہوئے ایک دوسرے کا ساتھ دیتی ہے کیونکہ وہ ریاست کو ذاتی اور گروہی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے اور اس کے لیے زیادہ ذمہ دار سیاسی قیادت ہی ہے کیونکہ اس صورتحال سے سب سے زیادہ فائدہ سیاسی قیادت خود اٹھاتی ہے یا ان گروہوں کو فائدہ اٹھانے میں مدد دیتی ہے جو بدلے میں کسی خاص جماعت یا گروہ کے اقتدار میں آنے کے لیے راستہ ہموار کرتے ہیں۔ شہباز شریف کا مذکورہ بیان بھی یہی بتاتا ہے کہ ہمارے سیاست دان عوام کو حقائق اور غیر جذباتی معاملات کی طرف لانے کی بجائے انھیں صدیوں پرانے فرسودہ نعروں کی مدد سے بے وقوف بناتے ہیں۔ عوام کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مالی بحران یا معاشی عدم استحکام کا پیدا ہونا کوئی عزت اور غیرت کا مسئلہ نہیں ہے، یہ ایک انتظامی معاملہ ہے اور اسے ایسے ہی دیکھا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی یہ بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ کئی بار ایسے مسائل کے لیے مقامی عوامل کم کردار ادا کرتے ہیں اور بین الاقوامی صورتحال معاملات پر زیادہ اثر انداز ہورہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے کئی ممالک اور خطے متاثر ہوتے ہیں۔ اس سلسلے کی تازہ ترین مثال کورونا وائرس کے ذریعے پھیلنے والی عالمگیر وبا کے دنوں میں ہمیں دکھائی دی جب دنیا بھر کی معیشتیں بری طرح متاثر ہوئیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں جب مالی بحران یا معاشی عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو وہاں حکومتوں کی جانب سے عوام غیر جذباتی طور پر حقائق سے آگاہ کرنے کے علاوہ ایسے کون سے اقدامات کیے جاتے ہیں جن کی مدد سے وہ بحران یا عدم استحکام پر قابو پانے کے قابل ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہاں ان ترجیحات کا تعین کیسے کیا جاتا ہے جو ملک کو بحران سے نکلنے میں مدد دیتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ سوالات بھی غور کے قابل ہیں کہ کیا وہاں بھی بر سر اقتدار سیاسی قیادت ایسی صورتحال میں ذاتی اور گروہی مفادات کے تحفظ میں مصروف رہتی ہیں؟ کیا وہاں ہماری بیوروکریسی جیسا سرکاری ملازمت کا نظام موجود ہے جس کا حصہ بننے والے افراد کو غیر معمولی مراعات و سہولیات دے کر ایک خاص الخاص گروہ قرار دیدیا جاتا ہے؟ ایسے ہی بے شمار سوالات اور بھی ہیں جن میں سے چند ایک بوجوہ لکھے بھی نہیں جاسکتے لیکن ہم سب نہ صرف ان کی اہمیت سے واقف ہیں بلکہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان پر غور کیے بغیر ہم اپنے بڑے بڑے مسائل پر قابو نہیں پاسکتے۔
پاکستان اب سے نہیں بلکہ ایک لمبے عرصے سے معاشی عدم استحکام کا شکار ہے۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ درمیان میں کچھ وقت ایسا بھی آ جاتا ہے جب یہ عدم استحکام عوام کو قدرے کم متاثر کرتا ہے ورنہ 1958ءسے لے کر 2023ءتک آئی ایم ایف کے در پر بار بار کشکول لے کر جانے کی تاریخ گواہ ہے کہ ہم معاشی عدم استحکام کے شیطانی چکر سے کبھی نکلے ہی نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم اس چکر سے نکل نہیں سکتے۔ بہت سے معاشی ماہرین پاکستان کے مالی اور معاشی مسائل کے جو حل تجویز کرتے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بگاڑ پر قابو تو پایا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے ہمیں اپنی ترجیحات میں کچھ بنیادی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ ان تبدیلیوں کے لیے بہت سے طاقتور افراد اور گروہوں کو قربانیاں دینا ہوں گی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ افراد اور گروہوں یہ قربانیاں دینے کے لیے آمادہ نہیں ہیں، لہٰذا ہر بار قربانی کا بکرا عوام کو ہی بنایا جاتا ہے اور عوام سے قربانی لے کر ملک کے حالات میں جو معمولی سے بہتری آسکتی ہے بس پھر وہی آتی ہے اور عدم استحکام جوں کا توں رہتا ہے!