آواز خلق
فاطمہ ردا غوری
چند دن سے دو ٹوک بات کرنے کے لئے ہمت بندھا رہی ہوں کچھ باتیں گھر میں کرنا تھیں ،جس کالج میں آجکل لیکچرز دینے کا سلسلہ چل رہا کچھ دوٹوک فیصلے وہاں بھی سنانا تھے اور شام کے وقت گھر آنے والے چند بچے جن کی ضد ہے کہ وہ مجھ کم علم سے علم و ادب کے حوالے سے کچھ نہ کچھ سیکھ کر ہی دم لیں گے ان کو بھی حتمی طور پر کچھ بتانا مقصود تھا
سو کل ناشتے کی میز پر شوہر صاحب کو سامنے بٹھایا اور سیدھی صاف بات کر ڈالی کہہ دیا کہ اب حالات یکسر بدل چکے ہیں اب ہم وہ نہیں رہے جنہیں کچھ معلوم ہی نہیں زندگی کے معاملات کس طرح سے چلائے جاتے ہیں اور کس طرح دھڑلے سے ، ٹوہڑ ٹپے سے جیا جاتا ہے ہم بھی جان چکے ہیں سو اب اسی طریقہ کار کے تحت جئیں گے جو ہمارے لئے سود مند ہو گا آج سے ہم گھر میں کھانا نہیں بنائیں گے اور نہ ہی صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جائے گا لیکن ہمارے یہ سب کام چھوڑ دینے کے باوجود ماہانہ اخراجات اور گروسری اسی طرح باقاعدگی سے آتی رہے گی جس طرح ہر ماہ آتی ہے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتی جائے گی یہ سنتے ہی میاں صاحب سے حیرانگی سے ہماری جانب دیکھا اور کچھ کہنے کے لئے الفاظ ترتیب دینے ہی والے تھے کہ ہم نے گرجدار آواز میں کہا ابھی میری بات ختم نہیں ہوئی اگلی ڈیمانڈ یہ ہے کہ میں بچوں کی تعلیم و تربیت پر بالکل بھی توجہ نہیں دوں گی اور آپکی ضروریات کا خیال رکھنا بھی میری روٹین کا حصہ نہیں لیکن مجھے بالکل ویسا ہی مقام و مرتبہ چاہئے جو ایک پرفیکٹ ماں اور بہترین بیوی کو حاصل ہوتا ہے مجھے خدمات کا ریوارڈینے میں کوئی کنجوسی نہیں ہونی چاہئیے !!!
اب کہ تو میاں صاحب یکدم سٹپٹا ہی گئے اس سے پہلے کہ انکے لب میرے لئے گل افشانی کرتے کمال ڈھٹائی سے ہاتھ دکھاتے ہوئے میں دوبارہ گویا ہوئی کہ ” بس بات ختم “ مجھے کالج کے لئے دیر ہو رہی ہے آپ چائے پی لیجئے ، اللہ نگہبان۔۔۔۔
بعد از آں کالج پہنچی تو سیدھا پرنسپل آفس کا رخ کیا دعا سلام کے بعد دو ٹوک فیصلہ سنایا کہ جو نصاب اور شیڈول مجھے بچوں کو پڑھانے کے لئے دیا جائے گا میں اس نصاب اور شیڈول کو بالکل بھی فالو نہیں کروں گی اور عین ممکن ہے کہ میں کئی کئی دن بچوں کے علم کے نام پر کچھ بھی نہ دے پا?ں لیکن ہاں ! اس سب کے باوجود مجھے طے شدہ تنخواہ مقررہ تاریخ پر ہی چاہئے اور اگر تنخواہ میں اضافے یا علیحدہ سے بونس کے لئے بھی کوشش کی جائے تو قطعاََ کوئی مذائقہ نہیں اس گستاخی کے بعد محترم پرنسپل صاحبہ نے کچھ بھی نہ کہا بس بیل بجائی اپنی خاص الخاص بندی کو آفس میں بلایا اور فرمایا کہ فاطمہ غوری صاحبہ کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں شائد حواس باختہ ہیں انہیں سٹاف روم میں لے جائیں چائے پلوائیں بہتر ہوں تو دوبارہ آفس میں لے آئیے گا انکی ہدایات پر غصہ تو بہت آیا لیکن ہمارے یہاں کا تو یہ پرانا دستور ہے ناں جو حق پر ہو سچ کہے اسے جلد یا بدیر حواس باختہ ثابت کر ہی دیا جاتا ہے !!!
اس تھکا دینے والے بوجھل دن کے بعد گھر پہنچی توشام اپنے پر پھیلانے لگی چند علم کے متلاشی بچے( جو خود کو اپنے تئیں میرے افکار و خیالات کا فین سمجھتے تھے اور بضد تھے کہ انہیں بس تھوڑا سا وقت چاہئے جس میں وہ کچھ سیکھ سکیں ) آن پہنچے بڑی محبت سے انہیں لوِنگ روم میں بٹھایا اور محنت سے اپنے لہجے کو سپاٹ بنانے کی ناکام سی کوشش کرتے ہوئے انہیں بھی حتمی فیصلہ سنانے کی کوشش کی کہ سارا دن تھکا دینے والی مصروفیات کے سبب یہ وقت میں نے آرام کے لئے مختص کر دیا ہےہاں البتہ اگر انہیں میری صحبت سے اسقدر عشق ہے تو انہیں آنے سے منع نہیں کروں گی لیکن آرام کی قربانی ہر گز نہیں دوں گی جس دن جی چاہے گا ہلکی پھلکی نشست کا اہتمام کر لوں گی لیکن علم و تربیت کے نام پر انہیں کچھ ذیادہ نہیں دے سکوں گی
علاوہ ازیں ان خاص نشستوں کی فیس بھی ڈبل ہو گی خواہ اس فیس کا بندوبست اپنے والدین کی خون پسینے کی کمائی یا خون نچوڑ کر ہی کیوں نہ کیا جائے!!! کہ موجودہ حالات کے پیش نظر ہم جذبات و احساسات کی با?نڈری پھلانگ چکے ہیں اور مکمل طور پر پریکٹیکل ہو چکے ہیں یہ سب سننا تھا کہ وہ بچے خاموشی سے اٹھ کر چلے گئے ان کی آنکھیں آنسو?ں سے لبریز تھیں ایک آدھ کی تو چھلک بھی پڑیں لیکن چہ معنی دارد ؟
یہ دکھ ، تکالیف ،مشکلات ،آنسو ،آہیں تو ہمارے رہنما?ں کی بدولت ایک عرصہ سے ہمارے نصیب میں لکھی جا چکی ہیں یہ محض ایک دن کی تکلیف کا قصہ ہے کہ اگر ایک انسان اپنی تمام ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو جائے اور ڈھٹائی کے ساتھ محنتانے کا مطالبہ بھی کرے تو اس کی اس حرکت سے کتنے لوگ اور کتنے ادارے متاثر ہوسکتے ہیں اول تو کوئی بھی اس کے اس مطالبے پر کان نہیں دھرتا اور اگر کوئی اسے سپورٹ کرے تو وہ یقینا اس کے جرم میں یا اس بھونڈے پلان میں باقاعدہ شریک ہوتا ہے اسی لئے مخبری سے پرہیز کرتا ہے مقام افسوس ہے کہ ہمارے یہاں یہ حالات محض کسی ایک فرد یا چند افراد تک محدود نہیںبلکہ تقریباََ تمام ادارے اسی طرح کے صورتحال کا منہ بولتا ثبوت ہیں کوئی بھی اپنی ذمہ داری مکمل دیانت داری کے ساتھ نبھانے کو تیار ہی نہیں یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اس طرح کے رویوں کے ہم ایک عرصہ سے عادی ہیں لیکن اب کی بار تو انتہا ہو گئی ہے گویا
ہر طرف شور ہے سحاب سحاب
ساقیا ساقیا شراب شراب
رند بخشے گئے قیامت میں
شیخ کہتا رہا حساب حساب
وائس آف امریکہ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق بجلی کے بلوں میں صارفین کی استعمال شدہ بجلی کی قیمت صرف ۰۳ فیصد ہوتی ہے جبکہ ۰۷ فیصد اضافی چارجز وصول کئے جا رہے ہیں !!!اپنی بدانتظامی اور بدعنوانی کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد ٹوٹنے کے بعد ہم عوام کو لوٹا جا رہا ہے اور اس حوالے سے ادائیگیوں کا کوئی ریکارڈ ہم سے شیئر نہیں کیا جاتا اگر کچھ شیئر کیا جاتا ہے تو وہ بل نوکریوں کے منتظر بے روزگار نوجوانوں کے منہ پر طمانچہ ہیں جبکہ تنخواہ دار طبقہ کی تنخواہ سے بھی کہیں ذیادہ ہیں یہی وجوہات ہیں کہ چند روز قبل گوجرانوالا میں بجلی کے بل کی ادائیگی کے مسئلہ پر بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کو شہ رگ کاٹ کر قتل کر دیا اور ایک جیتے جاگتے انسان نے بجلی کا بل موصول ہونے پرخودکشی کرلی ایسے کئی افسوسناک واقعات سامنے آ رہے ہیں کوئی زیورات بیچ کر بجلی کے بل ادا کر رہا ہے اور کوئی اپنی سالوں کی جمع پونچی قربان کر کے بجلی بل کی ادائیگی ممکن بنا رہا ہے شنید ہے کہ آئندہ چند ماہ میں یہ سادہ لوح نفسیاتی مریض بن چکی عوام اپنے جسم کے اعضائ بیچ کر بجلی کے بل ادا کیا کرے گی اور اربوں روپے ان کارخانوں کو جائیں گے جن میں سے آدھے سے زیادہ کارخانے ایک یونٹ بجلی بھی پیدا نہیں کر رہے لیکن پھر بھی ہماری خون پسینے کی کمائی سے کپیسٹی پیمنٹ کے نام پر اربوں روپے کے حصول کے مجاز ٹھہرے ہیں عقل حیران ہے کہ آخر ان چالیس خاندانوں کی کمپنیز کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل اختیار کیوں نہیں کیا جا رہا آئی پی پیز والے بھی سوچتے ہوں گے کہ پاکستانی رہنما?ں اور عوام کو ان سے کس قدر محبت ہے کہ ہر ماہ کروڑوں روپے کی مد میں نذرانہ عقیدت بجلی کے حالات کی مزید ابتری کے باوجود ان تک پہنچادیا جاتا ہے آخر یہ سب کیا ہے؟ کیوں ہے؟ ہمیں اس کا جواب کب دیا جائے گا؟