سویرا سلیم عباسی
saleemsavera28@gmail.com
وطن عزیز کی آبادی 240 ملین سے ذیادہ ہے۔ آبادی کی تقسیم کے تناسب سے 51 فیصد مرد جبکہ 49 فیصد خواتین ہیں۔یعنی مردوں اور خواتین کی تعداد تقریباً برابر ہے۔ ملک میں مردوں کو زیادہ فوقیت حاصل ہے اس بات کا ثبوت جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک میں پایا جاتا ہے۔گو موجودہ دور میں مرد اور خواتین یکساں علمی ،تخلیقی،اور عملی صلاحیتوں سے آراستہ ہیں لیکن بنیادی انسانی حقوق جیسا کہ صحت،علم کے مواقع اور دیگر معاشرتی رویوں میں خواتین کے خلاف واضح فرق پایا جاتا ہے۔ ہمارا ملک اس وقت صنف نازک کو با اختیار بنانے میں نمایاں پیش رفت/اقدامات کر رہا ہے۔ تاہم پاکستان میں خواتین کو بہت سی سماجی ،ثقافتی پابندیاں ،رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔ کچھ خواتین بوجہ ضرورت اور کچھ زاتی خواہش کی بناءپر ملک وقوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ آئی ایل او کی رپورٹ کے مطابق 2023 میں لیبر فورس میں خواتین کی شرکت 23فیصد سے زیادہ ہوگئی ہے۔ 70 فیصد خواتین زیادہ تر غیر رسمی شعبے میں کم آمدنی والی ملازمتوں تک محدود ہیں جبکہ 5 فیصد تک انتظامی عہدوں پر فائز ہیں۔کم آمدن والی ملازمتوں میں گھر پر کام کرنے والی ورکرز دینی اور دنیاوی تعلیم و تربیت کر کے اپنی ضروریات پوری کرتی ہیں۔ پرایوئٹ ادارے خواتین کو کم تنخواہ پر معمور کرتے ہیں۔کام کا بوجھ ان کے کندھوں پر بہت زیادہ ہوتا ہے۔نہ ہی انہیں اتنی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں ،سفری سہولتیں بھی نہیں ہوتیں ، خواتین کو بسوں اور ویگنوں میں ہراساں کیا جاتا ہے۔ ایک ٹیچر جو کہ کسی پرائیویٹ ادارے میں تعینات تھی ،انسے معلوم ہوا کہ پرائیویٹ ادارے میں کام کرنیوالی خواتین کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ خواتین جو گھروں سے باہر نکل کے کام کرتی ہیں اپنے خاندان کی مدد کے لیے محنت کرتی ہیں۔معاشرے میں بہت سی باتیں سنتی ہیں لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں ، کچھ لوگ انہیں سراہتے ہیں وہیں بہت سے لوگ انہیں ایزا پہنچاتے ہیں۔ یہ معاشرہ مردوں کا ہے مرد ان عورتوں کو ہراساں کرتے ہیں ،انہیں تنگ کرتے ہیں۔خوا وہ کام کرنے والی عورتیں کہیں بھی جائیں انہیں بہت سی تکالیف کا سامنا ہوتا ہے۔ پرائیویٹ ادارے کام بہت کرواتے ہیں مگر کوئی خاص معاوضہ نہیں ملتا نہ ہی کوئی بونس۔ اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کے دور میں گزر بسر بہت مشکل ہوتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ پرائیویٹ اداروں کو چاہیئے کہ اس مشکل وقت میں وہ کام کرنیوالی خواتین کے ساتھ تعاون کریں ،انکی تنخواہ بڑھائیں، انہیں سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ کچھ تو آسانی ہو انکے لیے!!
پوری دنیا ہی مہنگائی کی لپیٹ میں ہےاور پاکستان بھی اسی مشکل کا شکار ہے۔ جن گھرانوں میں خواتین اور مرد مل جل کر کام کر رہے ہیں ،جن گھرانوں میں مردوں نے خواتین کو شانہ بشانہ رکھا ان کے حالات قدرے بہتر ہیں۔ ان لوگوں سے جو خواتین کو کم تر اور بے مول سمجھتے ہیں۔جن گھرانوں میں مردانہ غلبہ ہے وہاں معاشی حالات کچھ پیچیدہ ہیں۔حکومت کو چاہیئے کہ ایسے پروگرام اور پالیسیاں نافز کرے جن کا مقصد صنفی مساوات کو فروغ دینا اور خواتین کو با اختیار بنانا ہو۔ ان میں تعلیم اور ہنر کی تربیت تک رسائی کو بہتر بنانا ، کام کرنے والی ماو¿ں کے لیے مدد فراہم کرنا انکے بچوں کے لیے ڈے کئیر بنانا۔حکومت کو چاہیئے کہ لیبر قوانین اور پالیسیوں کو بھی نافز کرے جو خواتین کے حقوق کا تحفظ کرے۔اگرچہ خواتین کو بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے تا ہم خواتین معاشی اور سماجی تانے بانے کا ایک اہم حصہ ہیں۔کام کرنے والی خواتین کی حمایت اور انہیں با اختیار بنا کر ہم سب کے لیے ایک خوشحال معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔