سیاسی عدم استحکام کا خطرناک پہلو

سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com 
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی

سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کبھی بھی بطور قوم اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھتے ہیں ،ہمیشہ اناﺅں کے خول میں پھنسے رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک بعد ایک بڑے بحران میں مبتلا ہو تے رہتے ہیں اور اس صورتحال کے پیش نظر عوام کی زندگی بھی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے ،سونے پر سہا گہ یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان بھی دیگر اداروں کو تو ملک کی ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہر اتے ہیں لیکن اپنے گریبانوں میں جھانک کر کبھی بھی نہیں دیکھتے کہ آخر مسئلہ ان میں تو نہیں ہے ،اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے سیاست حد درجے کے نا اہل بھی ثابت ہو ئے ہیں اور اس کی مثال بجلی کے مہنگے معاہدے ہیں جو کہ اس حکومت نے کر رکھے ہیں ،حکومتی کی ناہلی اور بد انتظامی کے باعث بجلی اتنی مہنگی ہو چکی ہے کہ عوام کے لیے بجلی خریدنا ناممکن ہو چکا ہے۔سابق نگران وزیر تجارت نے اس حوالے سے ہو ش ربا انکشافات کیے ہیں اور حکومت کی بد انتظامی اور نا اہلی کا پردہ چاک کیا ہے ،سابق وزیر کی جانب سے آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کا ڈیٹا بھی شیئر کیا گیا ہے جس میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ حکومت نجی بجلی گھروں سے 750روپے فی یونٹ تک میں بجلی خرید رہی ہے اور عوام کی لٹیا اس طرح سے ڈبو ئی جارہی ہے اس قسم کے معاہدوں کے بعد اگر ملک میں سرکولر ڈیٹ نہ ہو تو کیا ہو ؟ اور یہ تو صرف ایک شعبہ ہے جس کی ناہلی ملک کو تباہی کے دہانے پر لے آئی ہے یہی حال ملک میں ہر شعبے کا کر دیا گیا ہے۔سیاسی اور ریاستی بحران اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ حکومت کا وجود ہی خطرے میں محسوس ہو رہا ہے۔ہر گزرتا دن سیاسی تناﺅ میں بے تحاشہ اضافے کا باعث بن رہا ہے ،ملک محسوس ایسا ہو رہا ہے کہ خد ا نخواستہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور اس تباہی سے نکلنے کا کوئی بھی راستہ موجود نہیں ہے۔ٹکراﺅ کی کیفیت میں اضافہ ہو تا چلا جا رہا ہے اور مجھے تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ صورتحال ایک پا و ڈر کیگ (Powder keg) کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اس صورتحال میں صرف ایک چنگاری کی ضرورت ہے اور پورا ملک خدا نخواستہ خدا نخواستہ آگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دفن ہو چکے ہیں اور جیسا کہ پہلے زکر ہوا کہ بجلی کے بل ہی عوام کی دسترس سے باہر ہو گئے ہیں۔عوام ذہنی طور پر شدید انتشار کا شکار ہیں اور ان کو اپنی بھڑاس نکالنے کے لیے صرف موقع کی تلاش ہے۔مجھے نہیں لگتا کہ ہمارے اکابرین صورتحال کو درست طور پر سمجھنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔عوام میں نفرتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے اور ہر کو ئی اپنی اپنی ڈفلی بجانے میں لگا ہوا ہے۔عوام کو اداروں کے سامنے کھڑا کیا جا رہا ہے حکومت اور عدلیہ آمنے سامنے ہیں اور خطرہ محسوس ہو نے لگ گیا ہے کہ کہیں یہ پورا نظام ہی لپیٹ میں نہ آجائے ،اور اب تو حکومتی اکابرین کی جانب سے بھی برملا اس بات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ملک تیزی سے آئینی بریک ڈاﺅن کی جانب بڑھ رہا ہے۔حالات مشکل ہیں اور ہمیں بطور قوم ان حالات سے نکلنے کے لیے سنجیدہ کا ویشیں کرنے کی ضرورت ہے پاکستان کی بقا اسی چیز میں ہے کہ آئین کی پاسداری کی جائے ،آئین کی پاسداری موجودہ صورتحال میں کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔آئین ہی وہ مشترکہ دستاویز ہے جس نے کہ اس ملک کو جوڑ رکھا ہے اور بڑی محنت کے بعد یہ مشترکہ آئین وجود میں لایا گیا اور ضرورت اس بات کی ہر ادارہ اس آئین کی پاسداری کرے ،تب ہی یہ ملک درست راستے پر گامزن رہے گا اور رہ سکتا ہے ،اس کے علاوہ اور کو ئی چارہ نہیں ہے۔ہمارے سیاست دانوں کو بھی اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے ہمارے اداروں کو بھی غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے ،سیاسی اختلافات کو نفرتوں اور دوریوں میں بدلنے کی روش کو ترک کرنا ہو گا ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی روش کو پروان چڑھانا ہو گا اسی میں سب کا بھلا ہے ،اور سب کو اس کے لیے کام کرنا چاہیے۔خدارا ملکی حالات کو اس نہج تک نہ پہنچایا جائے جہاں سے واپسی کا راستہ ممکن نہ ہو لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بظاہر معاملات اسی ڈگر پر چل رہے ہیں اور بہتری کی کو ئی امید دیکھائی نہیں دے رہی ہے۔مارشل لا یا ایمرجنسی بھی کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے اور ماضی میں بھی جب بھی ایسے تجربے کیے گئے ہیں تو ہمیں نقصان ہی ہوا ہے ،ضرورت اس بات کی ہے کہ آگے بڑھا جائے اور ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے ملک کے تمام طبقات ذمہ درانہ کردار ادا کریں۔میں کل مفتی تقی عثمانی صاحب کو سن رہا تھا اور ان کے سنتے ہوئے میں ان کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکا ،میں نے تو کم سے کم پہلی مرتبہ کسی جید عالم دین کو ٹی وی سکرین پر ملک کے سیاسی اور معاشی مسائل کے حل کی بات کرتے ہوئے سنا اور روایتی قسم کی باتوں یا تنقید سے ہٹ کر ملک کی زمینی صورتحال کے مطابق عملی مشورے دیتے ہو ئے سنا۔ہم بطور ملک اور بطور قوم جس گڑھے میں گر چکے ہیں اس سے نکلنے کے لیے مختلف مکاتب فکر سے اسی طرح کے دور رس سوچ کے حامل وڑ ن کی ضرورت ہے جو کہ ملک کو آگے لے کر چل سکے۔حالات خراب ہیں اور ہمیں مل کر ہی ملک کو ان حالات سے نکالنا ہے اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے ،دہشت گرد عناصر بھی اندرونی خلفشار کا بھرپو ر فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہمیں اشد ضرورت ہے کہ اپنی غلطیوں کا تدارک کریں اس کے بغیر کو ئی چارہ نہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن