”وہ قحط سالی کے دوران باران رحمت ہیں اور خوف و مصیبت کے وقت جنگل کے شیر ہیں “۔ یہ وہ گھرانا ہے جس کی محبت دین اور جس سے عداوت کفر ہے اور ان کا قرب امن و نجات کی پناہ گاہ ہے “۔ ”اگر متقی لوگوں کا ذکر آئے تو یہ ان کے امام ہیں اور اگر پوچھا جائے کہ روئے زمین پر سب سے افضل کون ہیں ؟ تو اس کے جواب میں ان ہی کی طرف اشارہ ہوتا ہے “۔
فرزوق نے حضرت امام زین العابدین ؓاور آپ کے خاندان کی شان و عظمت میں جب یہ قصیدہ پڑھا تو ہشام کو بالکل بھی اچھانہ لگا اور وہ بھڑک اٹھا۔ اس نے فرزدق کو قید کر دیا۔
جب حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس سارے واقعہ کا علم ہوا تو انہوں نے فرزدق کے پاس بارہ ہزار درہم بھجوائے اور پیغام بھیجا کہ اے ابو فراس ہمیں معذور رکھنا کیونکہ اس وقت ہم امتحان و ابتلا ءمیں ہیں اور ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کچھ موجود نہیں۔
فرزدق نے یہ رقم واپس کر دی اور کہا کہ اے فرزند رسول میں نے سیم و زر کی خاطر بہت اشعار کہے ہیں میں نے یہ اشعار اپنے ان جھوٹے قصائد کے کفارے اور اللہ اور اس کے رسول اور فرزندان رسول سے عقیدت و محبت میں کہے ہیں۔
جب یہ پیغام حضرت امام زین العابدین کو ملا تو انہوں نے کہا کہ یہ رقم واپس اس کے پاس لے جاﺅ اور اس سے کہو کہ اے ابوفراس اگر تجھے ہم سے محبت ہے تو جو چیز ہم ایک مرتبہ کسی کو دے دیں تو اسے ہم اپنی ملک سے نکال چکے ہیں ہمیں واپس لینے پر مجبور نہ کرو اس پیغام کے بعد فرزدق نے یہ رقم قبول کر لی۔
حضرت زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ خوف خدا میں بہت زیادہ رویا کرتے تھے۔ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وضو فرماتے تو خوف الہی کی وجہ سے آپ کے چہرے کا رنگ زرد ہو جاتا۔ گھر والوں نے دریافت کیا کہ وضو کرتے وقت آپ کو کیا ہو جاتا ہے ؟ تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے تمہیں معلوم ہے میں کس کے سامنے کھڑا ہونے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ ( احیاءالعلوم )
حضرت سیدنا اما م زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت زیادہ سخی تھے۔آپ نے اپنی زندگی میں دو مرتبہ اپنا سارا مال اللہ تعالی کی راہ میں خیرات کیا اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ اہل مدینہ میں بہت سے غرباءکے گھروں میں ایسے پوشیدہ طریقوں سے رقم بھیجا کرتے تھے کہ کسی کو پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ رقم یا خیرات کہاں سے آ رہی ہے۔ ( سیر اعلام النبلائ)۔