چودہ روزہ جاری رہنے والا آپریشن خونریزی کے بعد14محرم الحرام 1400ھجری کو مکمل ہوا۔ اگر عیسوی کیلنڈر کا حساب لگایا جائے تو45سال قبل 20نومبر1979ءکو خانہ کعبہ پر قبضہ کیا گیا۔ شدت پسندوں کا سرغنہ جہیمان تھا۔ اس کے کردار اطوار اور شکل و صورت پر جائیں تو نام ہنومان جچتا ہے۔
نومبر میں سردی کا آغاز ہو چکاہوتا ہے۔ یہ بھی آفتاب طلوع ہونے سے قبل موسم کے لحاظ سے خوشگوار دن تھا۔ امام کعبہ الشیخ محمد بن عبداللہ السبیل نے نمازِ فجر کی امامت کی۔ سلام پھیرتے ہی ان کے سر پر آن کھڑے ہوئے شخص نے ان سے مائیک چھینا اور بدوآنہ عربی لہجے میں چلایا”برادرانِ اسلام، اللہ اکبر، امام مہدی کا ظہور ہو گیا ہے!“۔ اس دوران اس کے ساتھی خانہ کعبہ میں داخل ہو چکے تھے۔ چند ایک تابوت اٹھائے امام کے سامنے آگئے۔ انہوں نے تابوت نیچے رکھے اور ان سے کلاشنکوفیں نکال لیں۔ ان کو لہراتے ہوئے نعرے لگانے لگے: امام مہدی کا ظہور ہو گیا ہے۔ یہ لوگ اس نامراد شخص کو بھی ساتھ لائے تھے جسے امام مہدی قرار دے رہے تھے۔
ان کی طرف سے خانہ کعبہ پر یلغار یکم محرم کو کی گئی۔ اس دن مسجد الحرام میں ایک لاکھ زائرین موجود تھے۔ان میں سے زیادہ ترحاجی تھے۔حرم کے اندر گارڈز نے مزاحمت کی کوشش کی تو ان کو گولیوں سے اڑا دیا۔ ان محافظوں کے پاس صرف ڈنڈے ہوتے ہیں۔
4 سو حملہ آوروں میں بچے اور عورتیں بھی تھیں جو بندوق کی نوک اور بارود کے زور پر کچھ دیگر مطالبات کے ساتھ محمد بن عبداللہ القحطانی کی مہدویت منوانے آئے تھے۔ جنگجو آناً فاناً حرم کی ہر طرف پھیل گئے۔ 292فٹ اونچے میناروں پر مشین گنیں نصب کر لیں۔ 43سالہ جہیمان بن محمد بن سیف العتبی تربیت یافتہ جنگجوﺅں کی کمانڈ کر رہا تھا۔ اس کی جہالت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ پرائمری سکول سے بھاگ لیا تھا۔ اس نے نیم فوجی ادارے نیشنل گارڈز میں شمولیت اختیار کی اور 18سال سروس کرتا رہا۔ نوکری چھوڑ کر مدینہ چلا گیا جہاں اس کے متشدد مذہبی خیالات پروان چڑھنے لگے۔ جہیمان سخت گیر جماعت الجماعہ میں شامل ہوا۔ اس جماعت کے عقائد میں جوتوں سمیت نماز ادا کی جا سکتی تھی اور یہ مسجد میں محراب کو بدعت قرار دیتے تھے۔ ان کے خلاف کارروائی ہوئی تو جہیمان بھی پکڑا گیا۔ اس کی جیل میں محمد القحطانی سے ملاقات ہوگئی جس سے بہت کچھ بدل گیا اور اس کی جہالت شدت میں ڈھل گئی۔جہیمان کو 1978ءمیں احساس ہوا کہ اسلام میں مہدویت کے بارے میں جو بشارتیں موجود ہیں، القحطانی ان میں سے کئی پر پورا اترتا تھا۔
قحطانی کا اصل نام محمد تھا، والد کا نام عبداللہ، اور ان کا تعلق حجاز کے شمال میں واقع علاقے نجد سے تھا اور وہ سید تھا۔ مختلف روایتوں میں مہدی کی اسی قسم کی علامتیں بتائی گئی ہیں۔1978ءکے اواخر میں جہیمان نے دعویٰ کیا کہ اسے خواب میں بشارت ہوئی ہے کہ مہدی کا ظہور ہو چکا ہے اور وہ مہدی کوئی اور نہیں بلکہ محمد قحطانی ہے۔ اس نے قحطانی کی بہن سے شادی بھی کر لی۔
جہیمان نے شہر چھوڑ کر صحرا کا رخ اختیار کیا اور وہاں سے کیسٹیں ریکارڈ کرا کے اور پمفلٹ لکھ لکھ کر لوگوں کو بتانا شروع کر دیا کہ مہدی دنیا میں تشریف لا چکے ہیں۔ان پمفلٹوں میں سعودی حکومت پر الزام لگایا گیا کہ وہ مذہب کو دنیاوی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کر رہی ہے اور اس نے جہاد کا خاتمہ کر دیا ہے اور وہ مغربی دنیا کی کاسہ لیس بن کر رہ گئی ہے۔وہ سعودی عرب میں لائی جانے والی جدتوں کا بھی مخالف تھا۔جو اب خانہ کعبہ پر یلغار کر کے قبضہ کئے ہوئے تھا۔ انتظامیہ کے سامنے ایک لاکھ انسانوں کی زندگیوں کا معاملہ تھا۔ جنگجوو¿ں کی تعداد ان کے پاس اسلحہ کی مقدار اور ڈپلائے منٹ کا بھی اندازہ نہیں تھا۔
حکومت کی طرف سے فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے کمانڈوز اتارنے کی کوشش کی گئی جن کو نیچے آنے سے قبل ہی دہشت گرد فائرنگ کا نشانہ بناتے گئے۔ان کو بے بس کرنے کے لیے حرم میں پانی چھوڑنے کی تجویز دی گئی۔ اس کو بھی کارگر نہ گردانتے ہوئے عمل نہ کیا گیا۔ چوتھے روز فورسز نے دیواروں میں سوراخ کر کے اندر داخل ہو کر کچھ حصے چھڑالئے مگر زیادہ میں جہیمانیوں کا قبضہ برقرار رہا۔ اسی دوران القحطانی گولی کا نشانہ بنا اور مارا گیا جس سے اس کے پیروکاروں کے حوصلے پست ہونے لگے مگر جہیمان مقابلہ جاری رکھے ہوئے تھا۔
حکومت نے آپریشن کے لیے بیرونی مدد کے بارے میں غور کیا تو فرانس سے کمانڈوزبلائے گئے۔ایک رپورٹ کے مطابق انکوحرم کعبہ میں غیر مسلم کے داخلے کے پابندی کے پیش نظر عارضی طور پر مسلمان بنانے کے لیے کلمہ پڑھایا گیا۔انہوں نے اپنا کام فوراً شروع کر دیا۔ بے ہوش کرنے والی گیس چھوڑی گئی۔حرم پاک کے اکثر حصے کھلے تھے اس لیے گیس کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔
اسی دوران سعودی حکام نے دوسرا آپریشن شروع کر رکھا تھا۔ جونہی گیس داخل کی گئی، اس کے ساتھ ہی ماسک پہنے ہوئے سپاہیوں نے مسجد کی دیوار میں سوراخ کر لیے اور وہاں سے اندر گرنیڈ پھینکنا شروع کر دیئے، جس سے بہت سے یرغمالی ہلاک ہو گئے۔ محاصرے کو 14 دن گزر چکے تھے۔ باغیوں کا اسلحہ، خوراک اور ہمت ختم ہو چکے تھے، اوپر سے امام مہدی ہونے کا دعویدار بھی مارا جا چکا تھا۔ اس لئے بچے کھچے باغیوں نے چار دسمبر کو اپنے آپ کو حکام کے حوالے کر دیا۔ ان میں جہیمان بھی تھا جس کی ابتر حالت تھی۔جسے ہسپتال داخل کرایا گیا۔
سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ شہزادہ ترکی الفیصل جہیمان کودیکھنے ہسپتال گئے تو اس نے شہزادے کا ہاتھ تھام لیا، ’شاہ خالد سے کہو مجھے معاف کر دیں۔اس کی درخواست مسترد ہوئی۔
اگلے ماہ جنوری 1980ءمیں جہیمان سمیت62 شدت پسندوں کو سرِ عام پھانسی دے دی گئی۔ 14روز میں آپریشن میں حصہ لینے والے اہلکاروں خانہ کعبہ کے گارڈز اور زائرین سمیت حکومتی رپورٹ کے مطابق127 ،جبکہ غیر سرکاری ذرائع 4ہزار افراد کے جاں بحق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس واقعے کے بعد سعودی حکمرانوں نے لائی گئی بہت سی جدتوں سے رجوع کر لیا تھا۔