الیکشن کمیشن کا سپریم کورٹ سے رجوع نئے آئینی بحران کا عندیہ

Jul 27, 2024

اداریہ

پاکستان الیکشن کمیشن نے 41 آزاد ارکان کے معاملہ میں سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا ہے۔ اس سلسلہ میں الیکشن کمیشن نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو درخواست جمع کرائی ہے جس میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کی فل کورٹ کے اکثریتی فیصلہ کے بارے میں وضاحت کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے 41 آزاد ارکان نے پارٹی وابستگی کی دستاویزات جمع کرائی ہیں اور ان ارکان نے لکھا ہے کہ انکی پارٹی وابستگی تحریک انصاف کنفرم کریگی مگر الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں پی ٹی آئی کا کوئی پارٹی سٹرکچر موجود نہیں۔ تحریک انصاف کے بنیادی ڈھانچے کی عدم موجودگی میں آزاد ارکان کی پارٹی وابستگی کون کنفرم کریگا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ بیرسٹر گوہر علی خان الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں پارٹی چیئرمین نہیں ہیں‘ اس لئے سپریم کورٹ اس معاملے میں رہنمائی کرے۔ 
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے اور کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی سے وابستگی کا سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے 39 ایم این ایز کا نوٹیفکیشن ویب سائٹ پر جاری کر دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلہ کے تحت پی ٹی آئی کے 39 ارکان کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں پی ٹی آئی کے وکلاءبیرسٹر سلمان اکرم راجا اور بیرسٹر علی ظفر نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں پیدا ہونیوالے ممکنہ آئینی بحران کے حوالے سے نیا پنڈورابکس کھول دیا۔ بیرسٹر سلمان اکرم راجا نے گزشتہ روز میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے جی ایچ کیو کے سامنے احتجاج کی عمران خان کی کال کی تصدیق کی اور کہا کہ جی ایچ کیو پر احتجاج بانی پی ٹی آئی کا فیصلہ تھا۔ انکے بقول زمان پارک اور جوڈیشل کمپلیکس کے واقعات کے بعد پارٹی میں مشاورت ہوئی تھی اور یہ طے کیا گیا تھا کہ ایسا دوبارہ ہوا تو احتجاج وہیں ہوگا جہاں ہونا چاہیے۔ پارٹی کی اس مشاورت میں بانی پی ٹی آئی بھی شامل تھے۔ 
بیرسٹر علی ظفر نے گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ملک میں دوبارہ انتخابات کا امکان ظاہر کیا اور کہا کہ ایک سال میں دو الیکشن ممکن ہیں مگر اس کیلئے اسمبلیوں کی تحلیل ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پر بھی نئے اتخابات ہو سکتے تھے جس کیلئے اسمبلی میں اکثریت ضروری ہے۔ ہم نے سیاسی میدان کھول دیا ہے۔ ہم سٹریٹ پاور دکھائیں گے اور حکومت کو نئے انتخابات کی جانب جانا پڑیگا۔ اس وقت عدالتیں کھڑی ہو گئی ہیں اور فیصلے کر رہی ہیں۔ آئین اجازت دیتا ہے کہ ایک الیکشن کے بعد دوسرا الیکشن کرائیں۔ 
یہ امر واقع ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلہ سے ملک میں سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھا ہے اور ادارہ جاتی ٹکراﺅکی فضا بھی پیدا ہوئی ہے جبکہ اب الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کے سٹرکچر کی عدم موجودگی اور بیرسٹر گوہرعلی خان کے پی ٹی آئی چیئرمین کے منصب کا سوال اٹھانے سے ملک کی سیاست ایک نئے آئینی بحران کی جانب بھی جاتی نظر آرہی ہے۔ بے شک پارلیمنٹ‘ عدلیہ‘ مقننہ اور الیکشن کمیشن نے آئین میں موجود اپنے اختیارات اور ذمہ داریاں آئینی حدود وقیود کے مطابق ادا کرنا ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے ماضی میں بھی اور اب بھی کسی ریاستی انتظامی ادارے کی جانب سے آئینی حدود میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی کوئی اچھی مثال قائم نہیں ہو سکی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے خوداحتسابی کا عمل شروع کرتے ہوئے اپنے ماضی کے بعض متنازعہ فیصلوں پر نظرثانی کی اور ان فیصلوں کو آئین و انصاف کے تقاضوں کی بنیاد پر غلط قرار دیا جس سے امید کی کرن پیدا ہوئی کہ دوسرے ریاستی انتظامی اداروں کی جانب سے بھی خوداحتسابی کی روایت قائم کی جائیگی تاہم اس وقت ملک میں سیاسی اور آئینی حوالوں سے جو تضادات ابھر کر سامنے آرہے ہیں‘ وہ سسٹم میں اصلاح احوال کی قطعاً گنجائش نکالتے نظر نہیں آرہے۔ 
اس وقت الیکشن کمیشن بطور خاص آزمائش کے مراحل میں ہے جس نے 8 فروری کے انتخابات کے پراسس میں پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے کی بنیاد پر انتخابی عمل سے باہر نکالا اور اپنے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن کے رولز کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات نہ کراکے پی ٹی آئی کا بطور پارٹی وجود نہیں رہا اس لئے اسے اس کا انتخابی نشان الاٹ نہیں ہو سکتا۔ الیکشن کمیشن کا یہ عجیب و غریب مخمصہ ہے کہ جب سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلہ میں پی ٹی آئی کی بطور سیاسی جماعت حیثیت تسلیم کی گئی اور اسی ناطے سے اسے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی ہدایت کی گئی تو الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی اعلامیہ جاری کرکے پی ٹی آئی کے سیاسی جماعت ہونے کی تصدیق کردی گئی اور کہا گیا کہ اس کا نام اس وقت بھی رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی فہرست میں شامل ہے۔ اب الیکشن کمیشن نے ایک جانب تو پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کیلئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے اور دوسری جانب سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرکے پی ٹی آئی کے پارٹی سٹرکچر کا پھر سوال اٹھا دیا ہے جس کے بقول الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں پی ٹی آئی کا کوئی پارٹی سٹرکچر موجود ہی نہیں۔ 
ایسی ہی ایک آئینی اور قانونی الجھن مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلہ سے بھی پیدا ہو چکی ہے کیونکہ الیکشن کمیشن اور آئینی ماہرین کے بقول پی ٹی آئی تو اس کیس میں فریق ہی نہیں تھی اور نہ ہی اس نے الیکشن کمیشن اور عدالتوں میں مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی استدعا کی تھی‘ اسکے باوجود سپریم کورٹ کا اسے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ یقیناً اس معاملہ کی وضاحت کیلئے ہی حکمران مسلم لیگ (ن) کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں نظرثانی کی درخواست دائر کی گئی جو سپریم کورٹ کی انتظامی کمیٹی نے دو‘ ایک کی اکثریت کے ساتھ موسم گرما کی تعطیلات کے بعد تک موخر کر دی جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ کے تحفظات بھی سامنے آچکے ہیں۔ اس معاملہ میں اب پیپلزپارٹی اور الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے جبکہ پی ٹی آئی کو پندرہ دن کے اندر اندر مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے پندرہ دن پورے ہو چکے ہیں۔ اس معاملہ میں ابھی تک جو مزید آئینی پیچیدگی پیدا ہوتی نظر آرہی ہے‘ وہ ارکان اسمبلی کی اہلیت کے حوالے سے سپریم کورٹ کی جانب سے آئین کی دفعہ 63 کی متعلقہ شقوں کی تشریح سے متعلق ہے جس کے تحت سپریم کورٹ نے آئینی تقاضے سے تجاوز کرتے ہوئے پارٹی وفاداری تبدیل کرنے والے کسی بھی رکن کو اپنے پارٹی فیصلہ کے خلاف ووٹ کا حق استعمال کرنے سے بھی پہلے نااہل تصور کرلیا اور پھر اس فیصلہ کے تحت پی ٹی آئی کے وفاداریاں بدلنے والے ارکان کو نااہل قرار بھی دیا گیا۔ 
موجودہ صورتحال میں سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بھی زیربحث آئیگا کہ جو آزاد ارکان باضابطہ طور پر ایک سیاسی جماعت س±نّی اتحاد کونسل میں شامل ہو چکے ہیں وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اس پارٹی کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہونگے تو ان پر فلور کراسنگ کا قانون لاگو ہوگا اور سپریم کورٹ کے آئین کی تشریح کے حوالے سے کئے گئے فیصلے کی بنیاد پر انکی اسمبلی کی رکنیت بھی فلور کراسنگ کی بنیاد پر ختم ہو سکتی ہے۔ چنانچہ یہ صورتحال سنگین آئینی بحران میں تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے اور اس وقت سیاسی محاذآرائی جس انتہاءکو پہنچ چکی ہے‘ وہ سسٹم کی بقاءو استحکام کیلئے ہرگز سازگار نظر نہیں آرہی۔ اگر اس حوالے سے الجھاﺅادارہ جاتی اور سیاسی سطح پر دانستاً پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو ممکنہ طور پر سسٹم کے انہدام کی ذمہ داری بھی تمام متعلقین پر یکساں طور پر عائد ہوگی۔ اگر اب بھی قومی سیاسی قیادتیں فہم و تدبر سے کام لیں تو ایک میز پر بیٹھ کر وہ سسٹم کی بقاءکے راستے نکال سکتی ہیں ورنہ نئے انتخابات کی خوش فہمیاں بھی دھری کی دھری رہ جائیں گی اور اقتدار کی بوٹی ماضی کی طرح کسی اور کے ہاتھ میں آ جائے گی۔
 کیا کہ کوئی بھی طاقت چین اور پاکستان کے درمیان آہنی دوستی اور دونوں افواج کے درمیان بھائی چارے کو ختم نہیں کر سکتی۔

مزیدخبریں