کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ جو کھا رہے ہیں وہ آپ کو کسی پیچیدہ بیماری میں مبتلا کرسکتا ہے؟ آپ کا طرز زندگی درست ہے یا نہیں۔
آنتیں ہماری جسمانی صحت کو تندرست رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن ہمارے چند اقدامات آنتوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ان اقدامات میں ہماری طرز زندگی،خوراک اور پانی نمایاں ہیں۔سر گنگا رام ہسپتال لاہور کے سرجیکل یونٹ 3 کے ہیڈ پروفیسر ڈاکٹر قمر اشفاق احمد جنرل سرجری میں لیپروسکوپی اور ٹراما میں نمایاں مہارت رکھتے ہیں۔ یہ فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں تدریس سے بھی وابستہ ہیں۔
پیٹ اور اس سے منسلک امراض و وجوہات جاننے کے لیے نوائے وقت نے پروفیسر ڈاکٹر قمر اشفاق احمد سے آپ کی معلومات کے لیے ضروری سوال کیے ہیں جن کے جواب نذر قارئین ہیں۔
نوائے وقت: ایسے کون سے امراض ہیں جنھیں معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہ پیچیدگی اختیار کرکے مریض کو آپریشن کی جانب دھکیل دیتے ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر قمر اشفاق احمد: آج کل ٹائیفائیڈ عام ہے۔ اس کی علامات کو بیشتر اوقات عام نزلہ زکام سمجھا جاتا ہے۔درست تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے مرض پیچیدگی اختیار کرتا ہے اور بخار کے ساتھ پیٹ میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ بخار کے دوسرے یا تیسرے ہفتے میں پیٹ کی آنتوں کے پنکچر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔اگر مریض نے بروقت دوا استعمال نہ کرے تو کیس سرجری کی جانب بڑھتا ہے جس میں پیٹ کھول کر آنتوں کا آپریشن ہوتا۔اس میں بعض اوقات آنتوں کو باہر نکالنا پڑتا ہے۔دوسرا مرض معدے کی ٹی بی ہے جس میں مریض کو کئی روز بخار رہتا ہے اور بخار زیادہ تر رات کو چڑھتا ہے۔ ساتھ ہی اس کے پیٹ میں درد بھی رہتا ہے۔اس مرض میں بھی آنتوں کے پنکچر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور سرجری کی نوبت آسکتی ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ ٹی بی کی ابتداء میں تشخیص ہو جائے۔آنتوں کی ٹی بی اسے ہوگی جسے پھیپھڑے کی ٹی بی ہو اور صحیح تشخیص نہ ہوسکے۔ اب مریض تھوک کے ساتھ بلغم پیٹ میں لے کر جائے گا تو جراثیم اس کی آنتوں کو متاثر کریں گے۔ بطور سرجن میں آنتوں کی ٹی بی پر فوکس کر رہا ہوں۔ ٹائیفائیڈ اور ٹی بی ان لوگوں کو ہوتی ہے جو دودھ بغیر ابالے پیتے ہیں،پھل اور سبزیاں دھوئے بغیر استعمال کی ہیں یا وہ خواتین جنھیں ان امراض میں سے کوئی ایک مرض ہو وہ واش روم سے ہاتھ دھوئے بناء کھانا بنائے تو آٹو میٹک طور پر مرض گھر کے باقی افراد کو بھی ہوسکتا ہے۔
ٹی بی کے بعد میں تیسرے اہم مسئلے کی طرف آتا ہوں اور وہ یہ کہ جب ہم گوشت کا سالن بنا کر اسے فریج میں رکھ دیتے ہیں اور اسے بار بار باہر نکال کر گرم کرتے یا فریج کا ٹمپریچر لوڈ شیڈنگ کے باعث کم ہوتا ہے تب اس سالن میں ایک خاص قسم کا بیکٹریا پیدا ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سالن فریج میں ہے لیکن فریج کا ٹمپریچر کم ہونے یا اس سالن کو بار بار اوون میں گرم کرکے کھانے سے وہ ہمارے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ ہمیں فوڈ ہینڈلنگ نہیں سکھائی گئی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو کھانے کی چیز فریج میں ہے، وہ تازہ ہے۔ پھر جب سالن استعمال کرنا ہوتا ہے تو اس سارے کے سارے سالن کو ری ہیٹ کرتے ہیں،جتنا استعمال کرنا ہوتا کرتے ہیں،اس کے بعد بچے ہوئے سالن کو دوبارہ فریج میں رکھ دیتے ہیں اور تیسرے دن دوبارہ اس سالن کو ری ہیٹ کرتے ہیں۔ یوں بار بار ری ہیٹ کرنے سے بیکٹریا مزید پیدا ہوتے ہیں یعنی آپ جتنی مرتبہ ری ہیٹ کریں گے اتنے ہی زیادہ بیکٹریا پیدا ہوں گے۔ اس کیس میں خطرناک ڈائریا کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔لہذا اگر آپ نے کھانا ایک سے دو مرتبہ ری ہیٹ کیا ہے اور آپ کو پتہ ہے کہ دن بھر آپ کے فریج کی ٹھنڈک برقرار نہیں رہتی تو کھانا استعمال نہ کریں۔ اور کوشش کریں کہ کھانا فریج کی بجائے فریزر میں سٹور کریں۔ جتنا آپ کاایک وقت کا استعمال ہے اس کے مطابق کھانے کو کئی حصوں میں تقسیم کریں۔ تاکہ جتنا استعمال کرنا ہے بس اتنا ہی گرم کیا جائے۔
سوال: بازاری کھانے کس حد تک نقصان دہ ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر قمر اشفاق احمد: انڈر کک میٹ جو کم پکے ہوں مثلا،باربی کیو، سٹیک وغیرہ سے پرہیز کریں۔ کسی ریسٹورنٹ میں اگر کھانا کھانے گئے ہیں تو وہاں کی سلاد ہرگز نہ لیں۔ اگر آپ اس ریسٹورنٹ کی ہائی جین سے مطمئن ہیں تو وہاں کی سلاد کھا سکتے ہیں لیکن اگر آپ کسی ایسے ریسٹورنٹ بیٹھے ہیں جہاں کا آپ کو کچھ نہیں پتہ تو سلاد بالکل نہ کھائیں۔ کیونکہ برسات کے موسم میں بیکٹریا تیزی سے بڑھتے ہیں اور سلاد بنانے والے نے اگر سبزیاں اور پھل اچھی طرح دھوئے نہیں تو بیکٹریا براہ راست آپ کے پیٹ میں جائیں گے اور ٹائیفائیڈ یا ڈائریا کے چانسز پیدا ہوں۔اس کے علاوہ آرٹیفیشل فوڈ کلر جس بھی کھانے میں ہوں گے وہ ان ہائی جینک فوڈ ہے۔ مثلا بازاری کیچپ جو اصلی ٹماٹروں کی بجائے فوڈ کلر اور دیگر کیمکلز سے تیار کیا جاتا ہے مکمل طور پر نقصان دہ ہے۔
ہم یہ بھی کرتے ہیں کہ باربی کیو کو بالکل جلا کر پکانے کی ہدایت کرتے ہیں،بوٹی کی اوپری سطح جلی ہوئی جب دانتوں کے درمیان کرکری لگتی ہے تو اس کیفیت سے ہم لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن ہمیں نہیں معلوم ہوتا کہ ہم اپنے پیٹ تک کیا لے کر جارہے ہیں۔جب میٹ کو اوور کک کیا جاتا ہے تو اس میں ایک کیمیکل پیدا ہوتا ہے جو کینسر کی وجہ بنتا ہے۔
سوال: پیٹ کے امراض کی وجوہات کیا ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر قمر اشفاق احمد: پیٹ کے تمام امراض کی بنیادی اور اہم وجہ پانی ہے۔ اگر آپ سرکاری پانی استعمال کر رہے ہیں تو اس میں سیوریج کا پانی شامل ہونے کا خدشہ زیادہ ہے۔برسات میں ناقص پینے کے پانی کی سپلائی عام ہے۔صاف فلٹر پانی استعمال کریں۔ تاکہ ڈائریا سے بچا جائے۔
بازاری پاپڑ جن میں کرکرے نہایت تیز مصالحہ کے باعث مسائل کی وجہ بن رہا ہے بچوں کے لیے خطرناک ہیں۔ انہیں کھا کر پیٹ میں فورا درد شروع ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر سمجھتا ہے کہ بچے کو پینڈکس کا درد ہے۔ لیکن ڈائٹ معلوم کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ یہ تو کرکرے اور بازاری اشیاء کھانے کی وجہ سے ہے۔
سوال: قبض سے ہونے والی پیچیدگیاں کتنی خطرناک ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر قمر اشفاق احمد: اس میں اہم نقطہ ڈائٹ ہے۔ نان،چاول اور نان فائبر غذائیں اگر آپ کی غذا کا حصہ ہیں تو اس سے انسانی فضلہ نہیں بنے گا۔ جب یہ نہیں ہوگا تو قبض ہونا لازمی ہے۔اب قبض کے باعث پیچیدگیاں بنتی ہیں مثلا بواسیر ،فشر۔ ہیمورائڈ کی بات کریں تو یہ قبض میں زور لگانے سے ہوتی ہے۔جس کی وجہ سے خون آ جاتا ہے۔
بواسیر کی دو سٹیجز ہیں اندرونی بواسیر اور بیرونی بواسیر۔اگر آپ قبض پر قابو پا لیں اور اسے نہ ہونے دیں اچھی ڈائٹ لیں تو ہیمورائڈ کے مسائل بھی کم ہو جائیں گے۔ دوسری صورت یہ بھی ہوتی ہے سخت سٹول ہے اور آپ نے زور لگایا ہے تو اس سے مقعد پر زخم آ جاتا ہے۔ جسے فشر کہتے ہیں۔ یہاں مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ تکلیف سے بچنے کے لیے آپ حاجت ہونے پر بھی واش روم نہیں جائیں گے تو آنتوں میں موجود فضلہ سخت ہونے لگے گا اور مسائل مزید بڑھ جائیں گے۔ قبض سے ہونے والی تیسری پیچیدگی فسچولا ہے۔ اس میں اندرونی حصے میں کہیں پیپ کا پھوڑا بنا اور پھٹ گیا۔ یہ جڑوں والا پھوڑا ہوتا ہے۔ان تمام مسائل کی بنیادی وجہ قبض ہے جس پر قابو پا لیں تو پیچیدگی سے بچ سکتے ہیں۔
قبض پر قابو پانے کے لیے ڈائٹ ٹھیک کریں۔ میدہ اور اس سے بنی غذائیں ترک کر دیں۔ چاول اگر ایک وقت کھائے ہیں تو دوسرے وقت روٹی کھائیں۔ روٹی فائن آٹے سے بنی ہوئی نہ کھائیں بلکہ بھوری روٹی کھائیں۔ ڈبل روٹی بھی برائون استعمال کریں۔فوکس فائبر سے بھرپور اجناس پر کریں۔ اسپغول کا چھلکا،دودھ،دہی اور سلاد کو معمول بنا لیں۔بازاری کھانے اور بیکری مصنوعات نہ لیں اور زیادہ سے زیادہ پانی، سبزیاں،پھل استعمال کریں۔