کیا قوم نے نظریہ پاکستان بھلا دیا اور امام صحافت جناب مجید نظامی کی یاد!!!!!

امام صحافت جناب مجید نظامی کی قومی، ملی اور صحافتی خدمات تو بہت ہیں، ان پر اللہ کی رحمت تھی انہوں نے اپنی زندگی میں جس شعبے سے تعلق رکھتے تھے وہاں دیانت داری، محنت اور لگن کے ساتھ کام کرتے ہوئے سینکڑوں نہیں ہزاروں افراد کی زندگیاں بدلیں، وہ فلاحی کاموں میں بھی پیش پیش رہے، آج ملکی صحافت میں جتنے بھی بڑے نام نظر آتے ہیں وہ اپنی جوانی یا کیرئیر کی ابتداء میں نوائے وقت سے منسلک رہے۔ بہت سے ایسے ہیں جنہیں براہ راست امام صحافت جناب مجید نظامی کی زیر نگرانی کام کرنے کا موقع ملا۔ اس فہرست میں آج بھی بہت نمایاں نام شامل ہیں وہ لوگ جب کبھی اپنے کیرئیر کے آغاز یا کام سیکھنے کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو جناب مجید نظامی کو یاد رکھتے ہیں۔ صحافت میں اصولوں پر قائم رہتے ہوئے مالی نقصان برداشت کرنے کی بات ہو جناب مجید نظامی یاد آتے ہیں۔ امام صحافت کی وفات کے بعد سے آج تک ان کی خدمات کا ذکر ہوتا رہتا ہے، لوگ اس حوالے سے لکھتے اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ جب تک ان سے تعلق والے افراد زندہ رہیں گے وہ وقتا فوقتا یا جب کبھی موقع ملے انہیں یاد کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ 
امام صحافت جناب مجید نظامی کی صحافتی خدمات تو اپنی جگہ ہیں لیکن اس قوم پر ان کا سب سے بڑا احسان نظریہ پاکستان کی ترویج اور قیام پاکستان کا پیغام نوجوان نسل تک پہنچانا تھا۔ جب تک وہ زندہ رہے آخری سانس تک یہ کام کرتے رہے۔ انہوں نے خود کو استحکام پاکستان کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ نوائے وقت کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ نظریہ پاکستان، قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کے لیے خود کو وقف کر چکے تھے۔ وہ جتنا وقت نوائے وقت کو دیتے اتنا یا اس سے بھی زیادہ وقت مسئلہ کشمیر، دو قومی نظریہ، نظریہ پاکستان کو زندہ رکھنے کے لیے دیتے تھے۔ اس عظیم مقصد کے لیے نظریہ پاکستان ٹرسٹ، کارکنان تحریک پاکستان ورکرز، ایوان قائد اعظم جیسے منصوبے پاکستان کی خدمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ لوگ انہیں صحافتی خدمات کے حوالے سے یاد رکھتے ہیں بہت اچھی بات ہے جناب مجید نظامی کو اس حوالے سے ضرور یاد کرنا چاہیے کیونکہ صحافت میں بھی انہوں نے قومی خدمت کی لیکن میری نظر میں آج جس چیز کی سب سے زیادہ کمی محسوس ہو رہی ہے اور امام صحافت کو یاد کیا جانا چاہیے وہ مسئلہ کشمیر، نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ ہے۔ بدقسمتی ہے کہ مجھے آج کوئی بھی شخص پورے پاکستان میں اس اہم ترین معاملے پر کام کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتا۔ اس معاملے میں آپ شخصیات، شعبوں اور اداروں کی کارکردگی پر نظر دوڑائیں تو دکھ، ندامت اور افسوس کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ صرف ایک ادارہ ہے جس کے سربراہان جب کبھی اہم موقع پر، یوم آزادی، یوم دفاع یا اس طرح کے دیگر اہم مواقع پر قوم سے خطاب کرتے ہیں یا کوئی پیغام جاری کرتے ہیں تو دو قومی نظریہ یا نظریہ پاکستان کا پیغام سننے کو ملتا ہے اور وہ ادارہ افواج پاکستان ہے۔ افواج پاکستان کے سربراہ کے علاوہ کسی سیاست دان یا کسی سیاسی جماعت کو قومی سطح پر یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ دو قومی نظریہ یا نظریہ پاکستان کے حوالے سے قوم کو پیغام دیں یا قوم کو اس حوالے سے متحرک کریں۔ جناب مجید نظامی کے بعد اگر کسی آواز نے مسئلہ کشمیر کے مجھے بہت متاثر کیا تو شہید لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کی آواز تھی اور اس آواز کا تعلق بھی افواج پاکستان سے ہے۔ 
کیا مسئلہ کشمیر، نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ یہ صرف افواج پاکستان کی ذمہ داری ہے، کیا اس ملک کی سیاسی قیادت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ہماری سیاسی قیادت کہاں سوئی ہوئی ہے، کیا یہ ہماری سیاسی قیادت کی ذمہ داری نہیں کہ دو قومی نظرئیے کے حوالے سے کام کرے اور یہ پیغام لوگوں تک پہنچائے۔
امام صحافت جناب مجید نظامی کی خدمات کو دیکھیں تو انہوں نے ایک طرف بزرگوں کو تحریک پاکستان کے کارکنوں کو ٹرسٹ کے ذریعے جوڑے رکھا، نوجوانوں تک پیغام پہنچایا اور پھر ایوان کارکنان نظریہ پاکستان فاونڈیشن کے ذریعے نظریاتی سکولوں کے ذریعے بچوں تک بھی یہ اہم ترین پیغام پہنچاتے رہے۔ آج کون یہ کام کر رہا ہے، کیا ہماری سیاسی قیادت کو ہوش ہے کہ اس نے یہ کام بھی کرنا ہے۔ کیا ہماری سیاسی قیادت کو یہ احساس ہے کہ دو قومی نظرئیے کو بچے بچے تک پہنچانا اس کی ذمہ داری ہے لیکن بدقسمتی ہے کہ نہ تو قیادت کے پاس اس کا وقت ہے نہ ہی سیاسی قیادت کی یہ سوچ ہے ۔ کیا آج بھارت میں نریندرا مودی کی حکومت اپنے نظرئیے کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے کام نہیں کر رہی۔ کیا بالخصوص گذشتہ دس برسوں میں بھارت میں حکمران جماعت نے اپنے نظرئیے کو کیسے آگے بڑھا رہی ہے اور وہاں یہ کام آج بھی ہوتا نظر آتا ہے۔ ہماری حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کا دھیان اس طرف کیوں نہیں جاتا، کیوں ہر طرف سیاسی افراتفری ہے۔ نظریہ پاکستان، قیام پاکستان اور استحکام پاکستان یہ تو سیاسی جماعتوں کے منشور کا حصہ ہونا چاہیے اور اس معاملے میں مستقل مزاجی سے کام ہونا چاہیے۔ مجھے تو مادر ملت روڈ پر ایوان قائد اعظم جسے مرحوم مجید نظامی نے بہت محنت کے ساتھ تعمیر کیا وہ بھی ضائع ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ایسے ہی نظریہ پاکستان فائونڈیشن بھی اس فکر اور شدت کے ساتھ کام کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتی یہ تنزلی لمحہ فکریہ اور تشویشناک ہے۔ آج امام صحافت جناب مجید نظامی پر لکھتے ہوئے دل بوجھل ہے۔ بدقسمتی ہے کہ مہینوں، برسوں اور دہائیوں تک ان کی سرپرستی و رہنمائی میں کام کرنے والے صحافیوں نے بھی نظریہ پاکستان کی ترویج و ترقی کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ اگر سیاسی قیادت ذمہ داری نہیں نبھاتی تو کیا تحریر و تحقیق و تقریر سے وابستہ افراد بھی اس اہم ترین کام کو نظر انداز کریں گے۔ بدقسمتی ہے کہ سیاسی شدت پسندی ہمارا سب کچھ کھا گئی ہے ۔ نظریہ پاکستان اگر پس پشت ہے تو اس کی ایک وجہ سیاسی عدم برداشت اور شدت پسندی ہے۔ کاش کوئی اس طرف توجہ دے لیکن اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ مجید نظامی مرحوم کی مغفرت اور درجات بلند فرمائے ۔ آمین
آخر میں شاد عظیم آبادی کا کلام
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم 
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم 
میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر 
دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم 
ہو جائے بکھیڑا پاک کہیں پاس اپنے بلا لیں بہتر ہے 
اب درد جدائی سے ان کی اے آہ بہت بیتاب ہیں ہم 
اے شوق برا اس وہم کا ہو مکتوب تمام اپنا نہ ہوا 
واں چہرہ پہ ان کے خط نکلا یاں بھولے ہوئے القاب ہیں ہم 
کس طرح تڑپتے جی بھر کر یاں ضعف نے مشکیں کس دیں ہیں 
ہو بند اور آتش پر ہو چڑھا سیماب بھی وہ سیماب ہیں ہم 
اے شوق پتا کچھ تو ہی بتا اب تک یہ کرشمہ کچھ نہ کھلا 
ہم میں ہے دل بے تاب نہاں یا آپ دل بے تاب ہیں ہم 
لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک 
اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کم یاب ہیں ہم 
مرغان قفس کو پھولوں نے اے شاد یہ کہلا بھیجا ہے 
آ جاؤ جو تم کو آنا ہو ایسے میں ابھی شاداب ہیں ہم

ای پیپر دی نیشن