” جمہوریت؟“ آف کورس!” آزاد عدلیہ“؟ آبجیکشن می لارڈ

علی سفیان آفاقی
سپریم کورٹ ملک کا سب سے بااثر اور با اختیار قانون پر عملدرآمد کرنے والا ادارہ ہے لیکن حکومت اس کے فیصلوں کے ساتھ جو سلوک کر رہی ہے اور جو چالیں چل رہی ہے اس سے چیف جسٹس بھی عاجز نظر آتے ہیں۔اربوں کھربوں روپے کے کرپشن کے مقدمات کے ملزم یا تو گرفتار نہیں کئے گئے نہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کرکے لوٹی ہوئی دولت واپس لی گئی۔عدلیہ کا کہنا ہے کہ ہم قوم کی لوٹی ہوئی ایک ایک پائی واپس لائیں گے لیکن حکومت کی کوشش ہے کہ کروڑوں اربوں تو کیا ایک پائی بھی واپسی قومی خزانے میں نہ جانے پائے۔ انتہائی اہم اور سنگین مقدمات میں اگر کوئی دیانت دار افسر حکومت کے دباﺅ اور لالچ میں نہیں آتا تو اسکا راتوں رات تبادلہ کردیا جاتا ہے۔ مثال کے طورپر ایف آئی اے کے ڈائریکٹر ظفر قریشی کا کیس ملاحظہ کیجئے۔ جو بالکل صحیح تفتیش کررہے تھے کہ اچانک راتوں رات ان کا تبادلہ کردیا گیا۔ اب سپریم کورٹ انہیں واپس لانے کیلئے جو تدبیر کرتی ہے سرکاری شاطر اسے ناکام بنادیتے ہیں۔اس طرح صحیح تفتیش کا معاملہ آج تک لٹکا ہوا ہے۔
ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل ملک اقبال نے اربوں روپے کی کرپشن کے مقدمات کو اتنا الجھایا اور لٹکایا کہ چیف جسٹس کو بار با رکہنا پڑا کہ انہیں تبدیل کیاجائے۔ایک طویل عرصے کے بعد ان کو تبدیل تو کردیا گیا مگر شطرنج کے کھلاڑی ظاہر ہے کہ ان جیسا مہرہ ہی سامنے لاتے ہیں۔
ظفر قریشی کی واپسی کا معاملہ اس قدر الجھایا گیا کہ چیف جسٹس کو یہ ریمارکس دینا پڑے کہ ہم ”کسی افسر کی تعریف اس لئے نہیں کرتے کہ کہیں اسکا تبادلہ نہ کردیاجائے “۔
عدالت میں بنک کے وکیل حفیظ پیر زادہ نے ڈائریکٹر ایف آئی معظم جاہ کی تعریف کی تو چیف جسٹس نے فرمایا۔” ان کی تعریف نہ کریں ورنہ ان کا تبادلہ کردیاجائے گا“۔
آزاد عدلیہ کی بحالی کے لئے تمام قوم نے بہت جدوجہد کی ہے۔عدلیہ بحال ہوگئی تو صدر زرداری اور وزیراعظم کے علاوہ پیپلز پارٹی کا ہر ترجمان دعویٰ کرتا ہے کہ عدلیہ کی بحالی ان ہی کی مہربانی کا نتیجہ ہے۔ چلئے فرض کرلیجئے کہ آزاد عدلیہ کو پیپلز پارٹی ہی نے بحال کرایا تھا۔تو پھر اس کیلئے آزادانہ فیصلے کرنے کی راہ میں رکاوٹیں کیوں پیدا کی جارہی ہیں؟
عدلیہ کے ہر فیصلے کو عملی جامہ پہنانے میں شطرنج کے کھلاڑیوں کامشورہ ضرور شامل ہوتا ہے۔ صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی حکومت نے جب عرصے تک تحقیقات ہی شروع نہیں کیں اور تحقیقاتی کمشن نہیں بنایا تو سپریم کورٹ نے صحافیوں کی درخواست پر بلا تاخیر تحقیقاتی کمشن بنانے کا حکم دیا۔
” چیف جسٹس بار بار کہہ چکے ہیں کہ ہمارے احکامات پر عملدرآمد نہ ہوا تو کیا ہم خود عملدرآمد کرائیں“۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عظمت سعید کو بھی کہنا پڑاکہ بیورو کریسی عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہیں کر رہی۔ان سے کام نہیںہوتا تو بتائیں۔عدالتیں اپنے فیصلوں پر خودعملدرآمد کروالیں گی۔
ظفر قریشی کو بحال کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کافی عرصہ گذرنے کے بعد بھی عملدرآمد نہ ہوسکا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ” اس طرح عدالتی معاملات میں مداخلت کی گئی ہے“۔مجبوراً عدالت نے وزارت داخلہ، وزارت اسٹیبلشمنٹ اور وزیراعظم کے سیکرٹری کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کئے۔ ظاہر ہے کہ شطرنج کے کھلاڑی پھر سرجوڑ کر بیٹھے نئی چال سوچ رہے ہوں گے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ حکومت عدلیہ کی آزادی کا دم بھی بھرتی ہے مگر اسکے احکامات پر عمل نہیں کرتی۔ عدلیہ سے محاذ آرائی روز اوّل سے موجودہ جمہوری حکومت کا وطیرہ رہا ہے۔ عدلیہ کے خلاف جانبداری کا پراپیگنڈہ بھی جاری ہے، اسکی بالادستی بھی منظور ہے۔اسکے فیصلوں کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنا بھی اسکی مجبور ی ہے۔ آزاد عدلیہ کے حامی سیاستدان بھی زبانی جمع خرچ کے علاوہ حکومت کے اس طرزعمل کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں کرتے۔ پارلیمنٹ کہتی ہے کہ پارلیمنٹ ہی بالادست ہے۔یہ وہ پارلیمنٹ ہے جو ڈرون حملوں کے خلاف اپنی متفقہ قراردادوں پر عمل نہیں کراسکی۔
پارلیمنٹ میں ایسے افراد بھی تشریف فرما ہیں جنہوں نے اپنی مکمل اسناد جمع نہیں کرائیں اور گریجویٹ نہ ہونے کی وجہ سے پارلیمنٹ کے رکن بننے کے اہل ہی نہیں ہیں۔ درجنوں لوگوں کی ڈگریاں جعلی ثابت ہوچکی ہیں مگر حکومت کے شاطروں نے تصدیق کرنے والے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ناکارہ بنا کر ختم کردیا۔ اب نئے بجٹ میں اسکی گنجائش تو رکھی گئی ہے مگر ظاہر ہے کہ حکومت اس کے لئے ”موزوں ترین“ افرا د کا ہی انتخاب کرے گی۔
بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان آج تک یہی نہ سمجھ سکے کہ جمہوریت کے لئے آزاد عدلیہ، احتساب آزاد میڈیا لازمی شرطیں ہیں۔ یہ لوگ ” جمہوریت جمہوریت“ پکارتے تو رہتے ہیں،مگر جمہوریت کی وہ شرطیں پوری کرنے کا خود کو پابند نہیں سمجھتے جو اسکی بنیادی ضرورتیں ہیں۔ جمہوریت ان کے نزدیک ووٹ کے ذریعے حکومت حاصل کرنے اور عوام کو اپنا محکوم بنانے کا نام ہے۔آزاد عدلیہ کو بھی یہ کسٹم، پولیس اور ریلوے کی طرح ایک سرکاری ادارہ سمجھتے ہیں۔ایسے کچھ اور سیاستدان شاید ہی کسی اور ملک کو ملے ہوں گے۔

ای پیپر دی نیشن