ساس اور بہو کا رشتہ ہمارے معاشرے میں ایک دلچسپ مقام رکھتا ہے۔ ایک ساس نے بہو کو خاموش بیٹھے دیکھا تو کہا ”کیوں خیر تو ہے خاموش بیٹھی ہو‘ پھر کوئی طوفان اٹھانے کا ارادہ ہے کیا؟‘ جب بھی تم خاموش ہوتی ہو کوئی نہ کوئی سازش سوچ رہی ہوتی ہو“۔ بہو نے کہا ”آپ خوامخواہ مجھ پر الزام دھرتی رہتی ہیں“۔
مندرجہ بالا تمہید کا باعث نواز شریف صاحب کی معصومیت‘ بے بسی اور شرافت پر ہنسی آتی ہے۔ بیچارے پہلے وضع داری اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے زرداری کو اور جمہوریت کو فری ہینڈ دیتے رہے تھے تو ہم سب نے ان کی جان کھالی کہ وہ فرینڈلی اپوزیشن کرکے وقت نکال رہے ہیں۔ حکومتی لوٹ مار پر آنکھیں بند کر لی ہیں اور یہ کہ انہیں ان کی باری کا گرین سگنل مل گیا ہے۔ لوگوں کے طنز و تشنیع سے ڈر کر وہ برطانیہ چلے گئے اور صاحبِ فراش ہو کر خاموشی کی چادر اوڑھ لی۔ یارانِ من اس پر بھی انہیں چالاک اور بہانہ ساز کہنے لگے کہ وہ خاموشی سے باہر بیٹھے عوام کی بے بسی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ ادھر مہنگائی‘ لوڈ شیڈنگ جیسے مسائل نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔ تنگ آ کر نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے خلاف زبان کھولی اور ان کی کرپشن کو نشانہ بنایا اور فوج کے محاسبے اور ان کے بجٹ کو اسمبلی میں پیش کرنے کی بات کی تو سارا شہر ان کو سمجھانے نکل آیا کہ نہ جی ناں فوج پر کچھ نہ کہیں۔ میثاق جمہوریت کو ایک طرف رکھ کر زرداری صاحب فوج کے ساتھ جا کھڑے ہوئے۔
نواز شریف ہکا بکا سب کچھ دیکھ رہے ہیں کہ یہ سب کیا ہے۔ یہ وہی زرداری صاحب ہیں جو باقاعدہ فوج کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں او ریہاں تک بھی کہہ چکے ہیں کہ انہیں ایوانِ صدرسے ایمبولینس پر ہی باہر نکالا جائے گا یعنی ”ہم وہ خود سر ہیں کہ اب لوٹ کے جانے کے نہیں“۔ نواز شریف اور بےنظیر کے درمیان میثاق جمہوریت میں بھی یہی طے ہوا تھا کہ اب فوج کو اسمبلی کی برتری ماننا ہوگی۔ پھر یکایک نوڈیرو میں زرداری صاحب نے ایسی زبان کھولی کہ سیف صاحب یاد آگئے:
ان کے جوہر بھی کھلے اپنی حقیقت بھی کھلی
ہم سے کھنچتے ہی وہ تلوار نظر آنے لگے
انہوں نے نواز شریف کو مولوی نواز شریف کہہ کر مخاطب کیا تو انہوں نے سیاست میں لکیر کھینچ دی۔ ایک طرف رائٹ اور ایک طرف لیفٹ۔ ہمیں تو یہ بیان زرداری صاحب کی طرف سے خیر سگالی اور فرینڈلی سا لگا ہے کہ تمام مثبت اور اسلامی قوانین نواز شریف کی طرف رجوع کرلیں۔ تاہم امریکہ ضرور خوش ہوگیا ہوگا۔ ویسے اگر زرداری صاحب مولوی کی جگہ ملاں کا لفظ استعمال کرتے تو زیادہ بہتر تھا بہرحال مولوی اور مولنا تو ان کے اتحادی بھی ہیں۔ فضل الرحمن بھی تو آپ کے ساتھ ہیں وہ بھی پہلے مولوی تھے:
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلامِ شمس تبریزے نہ شد
ہمارے مولانا سیاست دان ہیں وہ تو کسی سربراہ سے کم کسی کو گھاس نہیں ڈالتے۔ زرداری صاحب نے نواز شریف کو لوہار ہونے کا طعنہ بھی دیا یہ بھی نواز شریف کو پیشہ وروں اور محنت کشوں کے قریب لانے والی بات ہے۔ پھر محترم کا یہ کہنا کہ وہ جرنیلوں کو عام فوج کو لڑانا چاہتے ہیں۔ اس میں بھی یہ ظاہر ہے کہ نواز شریف جرنیلوں کے خلاف ہیں۔ اس کا جواب آگیا کہ ن لیگ ان جرنیلوں کے خلاف ہیں جو این آر او کے تحت پیپلز پارٹی کو اقتدار میں لائے۔ سچ پوچھیے تو یہ سب کچھ کسی سکرپٹ کے مطابق لگتا ہے کہ جوں جوں الیکشن قریب آ رہے ہیں نواز شریف کی اہمیت بن رہی ہے یا بنائی جا رہی ہے۔ اس عمل میں دونوں جماعتیں حصہ لے رہی ہیں۔ پہلے ن لیگ نے پیپلز پارٹی کو سپورٹ کیا اور اب زرداری صاحب نے نواز شریف کے خلاف ایسی باتیں کی ہیں جس میں سوائے نواز شریف کی نیک نامی کے کچھ نہیں ہوا۔
مندرجہ بالا تمہید کا باعث نواز شریف صاحب کی معصومیت‘ بے بسی اور شرافت پر ہنسی آتی ہے۔ بیچارے پہلے وضع داری اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے زرداری کو اور جمہوریت کو فری ہینڈ دیتے رہے تھے تو ہم سب نے ان کی جان کھالی کہ وہ فرینڈلی اپوزیشن کرکے وقت نکال رہے ہیں۔ حکومتی لوٹ مار پر آنکھیں بند کر لی ہیں اور یہ کہ انہیں ان کی باری کا گرین سگنل مل گیا ہے۔ لوگوں کے طنز و تشنیع سے ڈر کر وہ برطانیہ چلے گئے اور صاحبِ فراش ہو کر خاموشی کی چادر اوڑھ لی۔ یارانِ من اس پر بھی انہیں چالاک اور بہانہ ساز کہنے لگے کہ وہ خاموشی سے باہر بیٹھے عوام کی بے بسی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ ادھر مہنگائی‘ لوڈ شیڈنگ جیسے مسائل نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔ تنگ آ کر نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے خلاف زبان کھولی اور ان کی کرپشن کو نشانہ بنایا اور فوج کے محاسبے اور ان کے بجٹ کو اسمبلی میں پیش کرنے کی بات کی تو سارا شہر ان کو سمجھانے نکل آیا کہ نہ جی ناں فوج پر کچھ نہ کہیں۔ میثاق جمہوریت کو ایک طرف رکھ کر زرداری صاحب فوج کے ساتھ جا کھڑے ہوئے۔
نواز شریف ہکا بکا سب کچھ دیکھ رہے ہیں کہ یہ سب کیا ہے۔ یہ وہی زرداری صاحب ہیں جو باقاعدہ فوج کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں او ریہاں تک بھی کہہ چکے ہیں کہ انہیں ایوانِ صدرسے ایمبولینس پر ہی باہر نکالا جائے گا یعنی ”ہم وہ خود سر ہیں کہ اب لوٹ کے جانے کے نہیں“۔ نواز شریف اور بےنظیر کے درمیان میثاق جمہوریت میں بھی یہی طے ہوا تھا کہ اب فوج کو اسمبلی کی برتری ماننا ہوگی۔ پھر یکایک نوڈیرو میں زرداری صاحب نے ایسی زبان کھولی کہ سیف صاحب یاد آگئے:
ان کے جوہر بھی کھلے اپنی حقیقت بھی کھلی
ہم سے کھنچتے ہی وہ تلوار نظر آنے لگے
انہوں نے نواز شریف کو مولوی نواز شریف کہہ کر مخاطب کیا تو انہوں نے سیاست میں لکیر کھینچ دی۔ ایک طرف رائٹ اور ایک طرف لیفٹ۔ ہمیں تو یہ بیان زرداری صاحب کی طرف سے خیر سگالی اور فرینڈلی سا لگا ہے کہ تمام مثبت اور اسلامی قوانین نواز شریف کی طرف رجوع کرلیں۔ تاہم امریکہ ضرور خوش ہوگیا ہوگا۔ ویسے اگر زرداری صاحب مولوی کی جگہ ملاں کا لفظ استعمال کرتے تو زیادہ بہتر تھا بہرحال مولوی اور مولنا تو ان کے اتحادی بھی ہیں۔ فضل الرحمن بھی تو آپ کے ساتھ ہیں وہ بھی پہلے مولوی تھے:
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلامِ شمس تبریزے نہ شد
ہمارے مولانا سیاست دان ہیں وہ تو کسی سربراہ سے کم کسی کو گھاس نہیں ڈالتے۔ زرداری صاحب نے نواز شریف کو لوہار ہونے کا طعنہ بھی دیا یہ بھی نواز شریف کو پیشہ وروں اور محنت کشوں کے قریب لانے والی بات ہے۔ پھر محترم کا یہ کہنا کہ وہ جرنیلوں کو عام فوج کو لڑانا چاہتے ہیں۔ اس میں بھی یہ ظاہر ہے کہ نواز شریف جرنیلوں کے خلاف ہیں۔ اس کا جواب آگیا کہ ن لیگ ان جرنیلوں کے خلاف ہیں جو این آر او کے تحت پیپلز پارٹی کو اقتدار میں لائے۔ سچ پوچھیے تو یہ سب کچھ کسی سکرپٹ کے مطابق لگتا ہے کہ جوں جوں الیکشن قریب آ رہے ہیں نواز شریف کی اہمیت بن رہی ہے یا بنائی جا رہی ہے۔ اس عمل میں دونوں جماعتیں حصہ لے رہی ہیں۔ پہلے ن لیگ نے پیپلز پارٹی کو سپورٹ کیا اور اب زرداری صاحب نے نواز شریف کے خلاف ایسی باتیں کی ہیں جس میں سوائے نواز شریف کی نیک نامی کے کچھ نہیں ہوا۔