کیس کی سماعت جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کی۔ سابق وزیر قانون نے استدعا کی کہ وہ اپنا مقدمہ خود لڑیں گے جس پر عدالت نے انہیں مقدمے سے اپنا وکیل الگ کرنے کی اجازت دے دی۔ بابر اعوان نے کہا کہ انہیں بولنے کی اجازت نہیں دی جارہی نہ ہی انہیں بتایا جارہا ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ دیوانی ہے یا فوجداری، وہ بھاگنے والے نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ان کی پوری بات سنی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ مقدمہ پیش کرنا پراسیکیوٹر کا حق ہے لیکن پراسیکیوٹر کا ایک لفظ بھی نہیں سنا گیا۔ بابر اعوان نے کہا کہ فیئر ٹرائل کا تقاضا ہے کہ عدالت تمام ریکارڈ مہیا کرنے کا حکم دے۔ اس پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کیا ریکارڈ پیش کرنے کی کوئی مثال موجود ہے تو بابر اعوان نے جواب دیا کہ بھٹو صدارتی ریفرنس کیس میں ریکارڈ فراہم کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت چھٹیوں کے بعد کیس کی سماعت کرے۔ جسٹس اعجاز افضل نےریمارکس دیئے کہ عدالت گمان کرنے نہیں بیٹھی بلکہ شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا۔ عدالت طے کرے گی کہ کس قانون کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔ کیس کی سماعت دو جولائی تک ملتوی کردی گئی ہے۔