توانائی بحران اور بجلی چوری

توانائی بحران اور بجلی چوری

اس حقیقت میں یقیناً کسی شک کی گنجائش نہیں کہ نوازشریف، شہباز شریف اور خواجہ محمد آصف صدق دل سے پاکستان کو اندھیروں سے نجات دلانے کا تہیہ کئے بیٹھے ہیں۔ خواجہ آصف ایسے جنونی سیاستدان کا وزیر پانی و بجلی بنایا جانا بھی تو حکومت کی سنجیدگی ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ کیونکہ کوئی بھی مشکل کام جذبے اور جنون کے بغیر پایہ تکمیل تک پہنچانا ناممکن نہ سہی مشکل ضرور ہوتا ہے۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ خواجہ منہ پھٹ اور جذباتی ضرور ہیںمگران کی سچائی اور جانبازی ناقابل چیلنج رہی ہے۔ یہی حال ہمارے خادم اعلیٰ کا بھی ہے۔
 حکومت کو بتایا گیا ہے کہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں نے دھاندلی کا بازار گرم کر رکھا ہے اور یہ کمپنیاں اور ان کے ممالک ہوس زر میں اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ بھلا بیٹھے ہیں کہ لوڈشیڈنگ نے پاکستان کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں، پاکستانیوں کو نفسیاتی مریض بنا چھوڑا ہے، دل کے مریض موت کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں، نوجوان، بچے اور بوڑھے شدید گرمی کے باعث گیسٹرو کا شکار ہو چکے ہیں۔ گرمی اور لوڈشیڈنگ کے باعث شرح اموات بڑھ چکی ہے۔ فیکٹریاں بند اور مزدور بے روزگار ہو چکے ہیں۔ ہزاروں گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں۔ خودساختہ لوڈشیڈنگ نے معیشت کا پہیہ جام کر دیا ہے۔ حکومت پاکستان نے وقت ضائع کئے بغیر بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے سربراہوں کو طلب کر کے ان کے ضمیر جگانے کی کوشش کی ہے۔حکومت کو بتایا گیا کہ فیول کی بروقت سپلائی لوڈشیڈنگ میں کمی لا سکتی ہے۔ حکومت نے فیول عذر بھی ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور سننے میں آ رہا ہے کہ بجلی پروڈیوس کرنے والی کمپنیوں کو اب فیول پرابلم درپیش نہیں ہے۔ نئی سرکار کو مطلع کیا گیا کہ بھارت سے بجلی خرید کر کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ حکومت نے اس تجویز کو بھی ماننے سے انکار نہیں کیا۔ کوئلے سے بجلی بنانے کی تجویز پر بھی حکومت پاکستان نہایت سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔ حکومت کی اس سنجیدگی کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہوئے ہی ڈاکٹر ثمر ایک بار پھر بولے ہیں کہ حکومت فنڈز دے تو کوئلے سے سستی بجلی بنا سکتا ہوں اس بیان کے بعد لگتا ہے کہ حکومت ڈاکٹر ثمر کو بھی مایوس نہیں کرے گی۔ سرکار کے ان تمام اقدامات سے لگ رہا ہے کہ حکومت پر وہ راستہ اختیار کرنا چاہ رہی ہے جو وطن عزیز کو اندھیروں سے دور بہت دور لے جائے۔
کہا گیا کہ بجلی کی کمی اور لوڈشیڈنگ کی بڑی اور اہم وجہ بجلی چوری ہے۔ حکومت نے تو بجلی چوری کیخلاف سخت م¶قف اختیار کر کے اپنی ذمہ داری پوری کر دی مگر لگتا ہے کہ بجلی چوری رکوانے کے میدان میں شکست کھا جائے گی کیونکہ بجلی چوری کو رکوانا انسانوں کے بس کا روٹ نظر نہیں آ رہا۔ اس میدان میں جب تک فرشتے نہیں اتارے جائیں گے بجلی چوری کی لفٹ کو روکا نہیں جا سکتا۔ اس ضمن میں اہل اقتدار کو فرشتے پروڈیوس کرنے ہوں گے۔ واپڈا افسران و اہلکار بجلی چوری ختم نہیں کر سکتے۔ ان کی اجازت، آشیرباد اور سرپرستی کے بغیر کوئی بھی شخص بجلی چوری کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ سزا کا تصور صرف بجلی چور تک محدود ہے۔ بجلی چور ہی کو جرمانہ کیا جاتا ہے۔ اس کا کنکشن کاٹا جاتا اسی کے خلاف FIR درج کرائی جاتی ہے۔ قانون بجلی چوری کروانے والے کو پوچھتا تک نہیں اسے سزا دینا تو دور کی بات ہے۔ بجلی چوروں اور بجلی چوری کرانے والوں کو قانون کی گرفت میں ان کے وہ آفیسر لا سکتے ہیں جو انہی اہلکاروں سے مالی طور پر مستفید ہوتے ہیں دیہاڑیاں اور ماہانے لیتے ہیں،بجلی چوری کروانے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ ان کی موجودگی اور سرپرستی کے باعث ہی کوئی ایماندار آفیسر کرپٹ اہلکاروں پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔
چند روز قبل واپڈا کی خصوصی ٹیم نے بجلی چور گھرانے پکڑنے کے لئے ریڈ کیا۔ مقناطیسی اور برقی آلات سے لیس ٹیم نے بے شمار گھروں کو بجلی چوری کرتے ہوئے پایا اور متعلقہ واپڈا آفس کو مطلع کیا کہ فلاں فلاں گھرانہ بجلی چوری کرتا ہوا پایا گیا ہے۔ دوستو! آپ کو یہ جان اور سن کر دکھ ہوگا کہ صرف ان گھرانوں کے بارے میں قانونی کارروائی کی گئی جن کے ساتھ مک مکا نہیں ہوا تھا۔ مک مکا کرنے والے گھرانوں کو چوری لسٹ سے خارج کر دیا گیا ان کے میٹر تبدیل کئے جا رہے ہیں اور بس!ہمیں جان لینا چاہئے کہ مُک مکا کے نتیجے میں حاصل ہونے والی رقم کہاں کہاں تک پہنچی ہو گی کس کس XEN-SDO اور SE کی جیب میں گئی ہو گی۔ حکومت کو کیا ملا کچھ بھی نہیں۔ جناب شہباز شریف اور خواجہ محمد آصف کو جان لینا چاہئے کہ ان کی ہر کوشش ناکام ہو گی تاوقتیکہ وہ فرشتے ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہو جاتے کیونکہ انسان بجلی چوری کریں گے اور انسان ہی ان کی سرپرستی کریں گے۔

خواجہ عبدالحکیم عامر....سچ ہی لکھتے جانا

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...