کارگل کے مسئلہ پر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے نوازشریف کے خلاف الزام تراشی اور کردار کشی کی ایک باقاعدہ مہم چلائی گئی تھی۔ اُس وقت نوازشریف اٹک قلعہ میں قید تھے۔ مجھے یاد ہے کہ نوازشریف نے جیل ہی سے جنرل پرویز مشرف کے الزامات کا جواب ایک تحریری بیان کی صورت میں دیا تھا۔ نوازشریف کا نقطہ نظریہ تھا کہ ”کارگل مہم جوئی سے نہ صرف وزیراعظم، بلکہ کئی کور کمانڈروں اور نیوی اور ایئرفورس کے سربراہوں کو بھی بے خبر رکھا گیا تھا۔ اس لڑائی میں 1965ءکی پوری جنگ سے بھی زیادہ جانی نقصان ہوا۔ یعنی تین ہزار سے زیادہ مجاہد اور لائیٹ انفنٹری کے جوان شہید ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف کی بار بار کی درخواست پر میں (نوازشریف) امریکی صدر بل کلنٹن سے ملنے 4 جون 1999ءکو واشنگٹن گیا تھا اور مسئلہ کا آبرو مندانہ حل نکالا“ نوازشریف نے اپنے تحریری بیان میں یہ بھی مطالبہ کیا کہ کارگل پر قومی کمیشن قائم کیا جائے جس میں وہ ناقابل تردید شواہد پیش کریں گے جن سے ثابت ہو جائے گا کہ وزیراعظم کو کارگل آپریشن سے بے خبر رکھا گیا تھا۔ نوازشریف نے مزید کہا کہ کارگل آپریشن کے ذمہ دار لوگوں کے نام مجھے معلوم ہیں اگر انکوائری کمیشن قائم کیا گیا تو میں تمام معلومات کمیشن کے سامنے پیش کر دوں گا۔
بیگم کلثوم نوازشریف نے بھی اپنی ایک تحریری میں یہ انکشاف کیا تھا کہ کارگل کے مسئلہ پر وزیراعظم نوازشریف نے فوجی افسروں پرمشتمل ایک انکوائری کمیٹی بنائی تھی جس نے اپنی رپورٹ مکمل کر کے وزیراعظم کو پیش کر دی۔ نوازشریف نے یہ رپورٹ قوم کے سامنے پیش کرنی تھی اور جنرل پرویز مشرف سمیت کارگل کے ذمہ داروں کا کورٹ مارشل ہونا تھا۔ حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد یہ رپورٹ وزیراعظم ہاو¿س سے چُرا لی گئی۔ بیگم نوازشریف نے یہ بھی کہا تھا کہ وزیراعظم نوازشریف کو اس بات سے گہرا صدمہ پہنچا تھا کہ انہوں نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے بھارتی حکمرانوں سے مذاکرات کا جو راستہ اپنایا تھا اور جس کے نتیجہ میں اٹل بہاری واجپائی اور نوازشریف کے درمیان جو معاہدہ لاہور ہوا تھا۔ جنرل پرویز مشرف نے کارگل پر مہم جوئی کر کے اس معاہدے کو سبوتاژ کر دیا اور برصغیر کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا۔
اب میں یہاں نوازشریف اور بیگم نوازشریف سے ہٹ کر بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمرل فصیح بخاری کے ایک انٹرویو کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کو یہ خوف تھا کہ کارگل کے حوالے سے غلط منصوبہ بندی کرنے پر انہیں کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑے گا اس لئے جنرل مشرف نے نوازشریف کی حکومت الٹنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ایڈمرل فصیح بخاری نے یہ بھی کہا کہ جنرل پرویزمشرف کے عزائم معلوم ہونے پر میں نے 12 اکتوبر 1999ءسے ایک ہفتہ پہلے بحریہ کی سربراہی سے استعفیٰ دیدیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف طویل عرصہ تک نوازشریف کے خلاف یہ الزام بھی عائد کرتے رہے کہ کارگل سے مجاہدین کی پسپائی کے ذمہ دار نوازشریف تھے لیکن امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل زینی نے جنرل پرویز مشرف کے اس الزام کو بھی جھوٹا ثابت کر دیا۔ جنرل زینی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ”پاکستان کی سول لیڈر شپ (وزیراعظم نوازشریف) کارگل سے پسپائی کرنے پر بالکل آمادہ نہ تھے۔ کیونکہ ایسا کرنا شرمندگی اور سیاسی خودکشی کے مترادف تھا لیکن جنرل پرویزمشرف کی درخواست پر آخر کار نوازشریف مجاہدین کی واپسی پر رضا مند ہو گئے۔“
کارگل کے سانحہ میں پاکستان کے بے پناہ مالی اور جانی نقصان کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ کارگل پر محاذ آرائی سے پہلے وزیراعظم کو نہایت واضح طور پر معلومات کیوں فراہم نہیں کی گئیں۔ کیا یہ درست ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے صرف خود کو کورٹ مارشل سے بچانے کے لئے ملک کا آئین پامال کر دیا اور سول حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں کی ناقص منصوبہ بندی اور کارگل پر غلط حکمت عملی اپنانے سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان اگر ایٹمی جنگ چھڑ جاتی تو کیا اس کے نتیجہ میں ہونے والی تباہی کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ کارگل کی محاذ آرائی سے کشمیر کی آزادی کی تحریک کو جو نقصان پہنچا اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی کارگل پر طالع آزمائی سے برصغیر کے خطہ میں بھارت کو جو فوائد حاصل ہوئے او پاکستان کو جو نتائج بھگتنا پڑے ان سب کا تعین کرنے کے لئے کارگل پر آج بھی انکوائری کمیشن قائم کرنا عظیم تر قومی مفاد کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ نوازشریف نے جب پہلی دفعہ کارگل پر انکوائری کمیشن کا مطالبہ کیا تھا تو وہ خود جیل میں تھے۔ آج نوازشریف ملک کے وزیراعظم ہیں۔ اب انہوں نے انکوائری کمیشن کا مطالبہ نہیں کرنا بلکہ وہ خود یہ کمیشن قائم کرنے کا حکم دے سکتے ہیں۔ بھارتی حکمران انڈیا میں یہ کام بہت پہلے کر چکے ہیں۔ پاکستانی قوم کا بھی یہ حق ہے وہ کارگل کے حوالے سے اصل حقائق تک رسائی حاصل کر سکے۔ کارگل کے محاذ پر ہمارے 3000 سے زیادہ مجاہدین کی جانی قربانیاں اوراس کے باوجود پاکستان کو ہونے والی شرمناک شکست اور پھر انتہائی بے بسی کے عالم میں امریکہ سے جنگ بندی اور امن کے لئے درخواست ان سارے معاملات کے ذمہ داروں کو تاریخ اور قوم کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لئے انتہائی اعلیٰ سطح کا کمیشن قائم کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ کارگل پر شکست کے ذمہ دار صرف فوجی جنرل نہیں۔ ممکن ہے کچھ سیاسی شخصیات بھی درپردہ اس میں ملوث ہوں۔ بہرحال پاکستانی قوم کو یہ حق ضرور ملنا چاہیے کہ وہ کارگل مہم جوئی کے پیچھے چھپے ہوئے تمام رازوں سے باخبر ہو جائے تاکہ آئندہ کے لئے کارگل جیسے سانحات سے ملک کو محفوظ رکھا جا سکے۔