امریکہ نے افغانستان سے اگلے برس تک نیٹو افواج کی پرامن واپسی یقینی بنانے کے لئے دوحہ (قطر) میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ کھول دیا ہے۔ طالبان نے دوحہ میں دفتر کے قیام کو اپنی فتح قرار دیا۔ تبصرہ نگاروں نے بھی طالبان کے دفتر کے اجرا کو امن معاہدہ کی طرف ایک اہم پہلا قدم قرار دیا ہے۔ زیرالی ضلع کے ایک طالبان جنگجو کمانڈر نے کہا ہے کہ وہ قطر میں دفتر کے قیام کا خیر مقدم کرتے ہیں کیونکہ اس کی مدد سے ہم ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی حیثیت سے بین الاقوامی کمیونٹی کے ساتھ مذاکرات کر سکیں گے۔ ہم امریکہ کو شکست دینے کے اہداف حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ ہم اپنے ملک کو بیرونی تسلط سے آزادی دلانا چاہتے ہیں۔ دوحہ قطر میں جب چند روز قبل طالبان دفتر کا اجرا کیا گیا تو اس پر سفید رنگ کا طالبان پرچم لہرا دیا گیا جو کہ کئی افغان دھڑوں خصوصاً کرزئی کے زیراہتمام افغان حکومت کے لئے اشتعال کا باعث بنا۔ افغان حکومت نے طالبان دفتر کے قیام کو امریکہ کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ طالبان جنگجوﺅں کا کہنا ہے کہ جب ان کے مطالبات کو تسلیم کر لیا جائے گا تو وہ مذاکرات کی میز پر آ جائیں گے۔ قندھار کے طالبان جنگجوﺅں کا موقف ہے کہ انہوں نے پہلے 1980ءکے عشرے میں سوویت یونین کے خلاف ہتھیار اٹھائے تھے اس کے بعد وہ 2001ءسے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف صف آرا ہیں۔ ان کا نصب العین افغانستان میں ایک خود مختار اسلامی حکومت کا قیام ہے۔ طالبان نے ایسے کسی نظام کی کبھی حمایت نہیں کی ہے جیسا کہ آج کل افغانستان میں قائم ہے۔ طالبان جنگجوﺅں نے کہا ہے کہ دوحہ امن مذاکرات کا مسلح جدوجہد پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ تاہم کچھ تجزیہ نگاروں کی رائے میں طالبان کے ساتھ معاہدہ ہو جانے سے بھی ملک میں حقیقی امن قائم نہیں ہو گا کیونکہ افغان جنگجوﺅں کے اور بھی بے شمار دھڑے ہیں جنہیں اعتماد میں لینے کی ضرورت ہو گی۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اپنے حالیہ دورہ دوحہ کے دوران اعلان کیا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ مفاہمت کی صورت میں نکلنے کی امید ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ افغان طالبان امن عمل کے لئے اپنے وعدوں کی پاسداری پر تیار ہیں یا نہیں۔ ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیری نے کہا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات درست سمت میں ہونے کی امید ہے تاہم افغان طالبان کو مذاکرات شروع نہ کرنے کی صورت میں دوحہ میں اپنا دفتر بند کرنا ہو گا۔ امریکی وزیر خارجہ نے امید ظاہر کی کہ تاخیر کے باوجود افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا آغاز ہو جائے گا۔ دوسری جانب افغانستان اور پاکستان کے بارے میں امریکہ کے خصوصی ایلچی اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے انچارج جیمز ڈونیز دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے رہنماﺅں کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں میں شریک ہوئے ہیں۔ تاہم امریکی حکام کے مطابق مذاکرات میں جان کیری شرکت نہیں کریں گے۔ جان کیری نے کہا ہے کہ طالبان کی اپنے قیدیوں کی رہائی جیسے مطالبات قبل از وقت ہیں۔ امریکی ترجمان پیٹرک ونیٹرل نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ مسائل کے حل کے لئے مثبت تعاون کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کو سرحد پار عسکریت پسندوں کے اقدامات کو غیر موثر کرنے کے لئے تعاون کرنا چاہئے۔ اسی طرح وائٹ ہاﺅس کے ترجمان جے کارن کے مطابق مفاہمتی عمل کے لئے اہم مذاکرات طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ہی ہوں گے تاہم واشنگٹن بے شمار معاملات پر طالبان سے براہ راست مذاکرات کا خواہاں ہے۔
افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں کرزئی افغان حکومت بھی بہت اہم کردار ادا کرے گی جبکہ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور نیٹو افواج پاکستان کے تعاون کے بغیر افغانستان سے پرامن انخلا مکمل نہیں کر سکتیں۔ افغان صدر حامد کرزئی کو بھی اس حقیقت کا پورا ادراک ہے۔ افغانستان نے امن مذاکرات کا آغاز کرنے کے لئے طالبان کے درجنوں سینئر قائدین کو رہا کرنے پر زور دیا ہے۔ ان میں ملا عمر کا سابق نائب کمانڈو ملا عبدالغنی برادر شامل ہے۔ افغان حکام کے نزدیک عبدالغنی برادر مذاکرات میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ افغانستان سے فوجوں کے پرامن انخلا کے لئے امریکہ جو حکمت عملی وضع کر رہا ہے اس کے بارے میں پاکستان، طالبان، افغان حکومت اور بھارت سب کو تحفظات ہیں۔ پاکستان کو افغانستان میں بھارت کے بڑھتے ہوئے کردار پر بہت تشویش ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے حالیہ دورہ دہلی میں یہ بیان دیا ہے کہ امریکہ کی خواہش ہے کہ بھارت اگلے سال افغانستان کے انتخابات میں اہم کردار ادا کرے۔ یہ خواہش عجیب لگتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت اپنے ہمسایہ ملک پاکستان کو غیر مستحکم کرکے افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا خواہش مند ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امن مذاکرات کا منظرنامہ پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔
امریکہ طالبان مذاکرات کے پیچ و خم
امریکہ طالبان مذاکرات کے پیچ و خم
Jun 27, 2013