بابائے جمہوریت ،نوابزادہ نصر اللہ خان۔ اپنے سیاسی، سماجی اور ذاتی دوستوں اور صحافیوں کو بھی۔ اپنے علاقہ مظفر گڑھ کے آم تُحفے میں بھجوایا کرتے تھے،لیکن یہ خبر بہت کم چھپتی تھی کہ ۔”نوابزادہ نصر اللہ خان نے، فلاں سیاستدان یا دوست کو، آموں کی اِتنی پیٹیاں تُحفے میں بھجوائی ہیں؟“۔ نوابزادہ صاحب ۔”حساب ِ دوستاں ۔در دِل “۔ کے قائل تھے،لیکن صدر زرداری نے، جب وزیرِاعظم نواز شریف کو،نواب شاہ میں ، اپنے فارم ہاﺅس کے آموں کا تحفہ بھجوایا تو ،اُن کے کسی کارِندے نے، یہ خبر چھپوا دی کہ۔” تُحفے میں بھجوائے گئے آم۔50پیٹیوں میں تھے “۔ تاکہ سندرہے اور وقتِ ضرورت کام آئے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ صدر زرداری کی طرف سے، وزیرِاعظم کو بھجوائے جانے والے آموں کا، مارکیٹ ریٹ بھی بتا دِیا جاتا ،تاکہ عوام و خواص کو پتہ چل جاتا کہ، جنابِ زرداری کے دِل میں ،جنابِ نواز شریف کے لئے کتنی ۔” قدر وقیمت“۔ ہے؟۔خبرمیں نہیں بتایا گیا کہ، وہ آم کِس نسل کے تھے؟ ۔” اچاری آم“۔ تو ہرگز نہیں ہوں گے اور نہ ہی، چُوسنے والے ۔بھارت کی ٹیلی فِلم ۔” مرزا غالب“۔ میں، نصیر اُلدّین شاہ نے۔ مرزا غالب کا کردار کِیا ہے ۔مَیں نے، اُس فِلم میں، مرزا غالب کو، آم چُوستے ہی دیکھا ہے۔مرزا غالب سے کسی نے پوچھا کہ ۔”مرزا صاحب!۔ کو ن سے آم اچھے ہوتے ہیں؟“۔ تو مرزا صاحب نے کہا۔” مِیٹھے ہوں اور بہت سارے!“۔
تحریکِ پاکستان کے سرگرم رُکن سیّد قاسم رضوی۔ (حُسین حقانی کے ماموں) ۔ 1966ءمیں کمشنر سرگودھا ڈویژن تھے ۔مرحوم ۔”انبالہ“ ۔ کے مہاجر تھے ۔ایک دِن مَیں نے اُن سے پوچھا کہ۔” سر!۔ کیا آپ کے شہر کا نام اِس لئے۔” انبالہ“۔ رکھا گیا کہ، وہاں آم بہت ہوتے ہیں؟“۔تو انہوں نے جواب دِیا کہ۔”یہ درُست ہے کہ انبالہ میں آم کثرت سے ہوتے ہیں ،لیکن انبالہ کا نام ۔ہندوﺅں کی دیوی ۔”انبا“۔ کے نام پر ہے اور ۔” انبا“ ۔ کو۔گُوری ۔پاروتی۔ اور دُرگا ۔بھی کہا جاتا ہے“ ۔پتہ چلا کہ ، رضوی صاحب کو اسلامی تاریخ کے ساتھ ساتھ۔”ہندو دیو مالا“۔ سے بھی کافی واقفیت ہے۔"Mango Grower" ۔ برادرِ عزیز، چودھری محمد ریاض اختر ،بہت عرصہ صوبہ سِندھ میں بھی رہے ہیں ۔مَیں نے اُن سے پوچھا کہ ۔”صدر زرداری نے،میاں نواز شریف کو جو، آم بھجوائے ہیں ،اُن کا نام کیا ہو سکتا ہے؟۔ چودھری صاحب نے بتایا کہ، سندھ میں زیادہ تر ۔”چَوسا“ آم اُگایا جاتا ہے، وہی ہو گا۔”سندھڑی“۔ تو نہیں ہو سکتا۔ کہ سِندھڑی آم تو، زیادہ تر سابق وزیرِاعظم محمد خان جونیجو کے گاﺅں ۔سِندھڑی۔ میں پیدا ہوتا ہے“۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ۔” جونیجو صاحب نے اپنے باغوں میں، سِندھڑی آم اُگانے کے لئے Scientific طریقہءکاشت اختیار کِیا تھا ۔ جونیجو صاحب بھی ، اپنے دوستوں کو، آموں کا تُحفہ بھجواتے تھے، لیکن خبر نہیں چھپتی تھی “۔
17اگست1988ءکی شام ،جو وی آئی پی طیارہ۔ بہاولپور ائر پورٹ سے، اسلام آباد کے لئے روانہ ہُوا تھا ،اُس میں صدر جنرل ضیاءاُلحق ،جنرل عبدالرحمٰن اور کئی دوسرے اعلیٰ فوجی افسروں اور امریکی سفیر سمیت، کُل 31لوگ سوار تھے ،جو ہوئی حادثے میں جاں بحق ہُوئے ۔پتہ چلا کہ طیارے میں، آموں کی پیٹیاں تھیں اور کسی پیٹی میں ریموٹ کنٹرول بم رکھوا دِیا گیا تھا۔ اب کِس کو اتنی فرصت تھی کہ تحقیق کرتا کہ پیٹیوں میں کِس نام کے آم تھے؟۔ آموں کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔پھر آموں کی ایک قِسم ۔”لنگڑا “ ۔ کیوں مشہور ہے؟۔ کیا لنگڑا کہنے پر پھلوں کے بادشاہ کی توہِین نہیں ہوتی؟۔ میرے ایک مرحوم دوست، مرزا شجاع اُلدّین امرتسری ۔( انفارمیشن گروپ کے محمد سلیم بیگ کے والد )۔ ساون کے موسم میں، دوستوں کو لاہور کے شالا مار باغ یا مقبرہ جہانگیرپر پِکنک ۔(مَینگو پارٹی) ۔پر لے جاتے تھے ۔ایک دِن کہنے لگے ۔”ہندوستان کے شہر بنارس کا۔ لنگڑا آم۔بہت مِیٹھا ہوتا تھا ۔مَیں نے بچپن میں کھایا ہے“۔ مَیں نے پوچھا۔” مرزا صاحب ! بنارس کے تو ٹھگ بھی مشہور ہیں۔ کبھی کسی بنارسی ٹھگ سے بھی واسطہ پڑا ؟۔تو بولے۔”1947ءکی تقسیم کے بعد، ہمارے حِصّے کے ٹھگ ہمیں مِل گئے تھے،وہی ہمارے لئے کافی ہیں!“۔
پنجاب کے راجپوت زمیندار ۔”انور راٹھُور“۔ کے نام پر آم، بہت مشہور ہے ، لیکن غلط اُلعام ۔بلکہ غلط اُلآم ہو کر اُس کا نام ۔” انور رٹول“۔ پڑ گیا۔سندھ میں۔”سِندھڑی“۔ اور پنجاب میں ۔”انور رٹول“۔ مہنگے عام ہیں ۔ہندوﺅں نے دو قِسم کے آموں کے نام ۔اپنے دو ویوتاﺅں ۔”بھگوان رام“۔ اور ۔”بھگوان کرِشن“۔ کے نام پر رکھے ہُوئے ہیں۔”رام بھوگ“ ۔اور ۔” موہن بھوگ“۔” موہن“ ۔شری کرِشن جی کا صفاتی نام ہے اور ۔” بھوگ“ ۔کا مطلب ہے کھانا ۔تو پھر جنابِ زرداری کے فارم ہاﺅس میں، اُگائے جانے والے آم کا ،کوئی نام کیوں نہیں؟۔ صدر زرداری اپنے فارم ہاﺅس میں اُگائے جانے والے آم کا نام۔ ( اپنے رضاعی بھائی جناب اویس مظفر ٹپّی کے نام پر )۔” ٹپّی “۔ رکھ دیں تو ، جنابِ ٹپّی کی ۔بلّے بلّے ہو جائے گی ۔جون 2010ءکے آخری ہفتے میں ، جب اسلام آباد میں ،سارک ممالک کے وزرائے داخلہ اور خارجہ سیکرٹریوں کی کانفرنسیں ہُوئِیں تو۔ (اُس وقت وزیرِداخلہ)۔ جناب رحمٰن ملک کی طرف سے،شُرکاءکو ۔”چَوسا“۔ آموں کی 20/20 کلو کی ایک ایک پیٹی، بطور تُحفہ پیش کی گئی تھی،اگر وہ آم صدر زرداری کے فارم ہاﺅس سے منگوائے ہوتے تو ، رحمٰن ملک ضرور کارروائی ڈالتے،لیکن جب بھی موصوف ،صدر زرداری کا پیغام لے کر۔”الطاف بھائی کے تحفظات“۔ دُور کرنے لندن گئے تو،یقیناً صدر زرداری کے فارم ہاﺅس کے آم ضرور لے جاتے ہوں گے ۔اِسی طرح ،گورنر سِندھ ۔ڈاکٹر عِشرت اُلعباد بھی شاید ،انہی آموں کے چسکے میں ، سندھ کی گورنر شِپ نہیں چھوڑ رہے ،ورنہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ارکان توہر وقت ،کراچی میں ہونے والے واقعات پر سوگوار ہی رہتے ہیں۔جون2010ءمیں ہی امریکی وزیرِخارجہ ہلیری کلنٹن نے حکومتِ پاکستان سے درخواست کی تھی کہ،پاکستان میں، امریکہ کے خلاف عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے ، امریکہ کو ،پاکستانی آموں کی ایکسپورٹ بڑھائی جائے ۔یہ درخواست مان لی گئی ،لیکن جب تک خلوص نہ ہو توکیا محض، آموں کی بر آمد بڑھانے یا اُنہیں تُحفے میں بھجوانے سے ،کسی کے مُخالفانہ جذبات ٹھنڈے ہو سکتے ہیں؟۔ دروغ بر گردنِ راوی کہ، میاں شہباز شریف نے، جنابِ زرداری کے بھجوائے گئے آموں میںسے، حِصّہ لینے سے معذرت کر لی ہے اور بڑے ادب سے اپنے لیڈر (بڑے بھائی) سے عرض کِیاکہ۔” بھائی جان !۔چھڈّو امباں شمباں نوں ۔خُرمانیاں کھایا کرو!۔نالے کھاﺅ خُرمانیاں تے نالے بھنّو بدام !“۔ دیکھنا یہ ہے کہ۔” صدر زرداری کی مینگو ڈِپلومیسی “۔ کامیاب ہوتی ہے یا خادمِ اعلیٰ پنجاب کی ۔”خُوبانی ڈِپلومیسی؟“۔