اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت رپورٹ + بی بی سی) اٹارنی جنرل نے این آر او عملدرآمد کیس میں سوئس مقدمات کے حوالے سے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ سابق حکومت نے سوئس مقدمات کھولنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کی منظوری سے لکھے گئے خط کے 17 دن بعد سوئس حکام کو ایک اور خط لکھا تھا جس میں یہ م¶قف اپنایا گیا تھا کہ حکومت پاکستان کو مقدمہ کھولنے میں کوئی دلچسپی نہیں، مقدمہ میں فریق بننے کیلئے سابق چیئرمین احتساب بیورو سیف الرحمان اور اس وقت کے اٹارنی جنرل چودھری فاروق کی جانب سے لکھا گیا خط غیر قانونی تھا اس لئے صدر آصف زرداری کیخلاف مقدمہ بندکر دیا جائے۔ اس خط کے ساتھ کچھ ایسی دستاویزات بھی بھیجی گئیں جن کا ریکارڈ وزارت قانون سے غائب ہے اس لئے سوئس حکام کا جوابی خط منظر عام پر لانے میں تاخیر سے اپیل کرنے کی مدت گذر گئی ہے تاہم حکومت نے سوئس لا فرم کی خدمات حاصل کر لی ہیں اور سوئس حکام سے رابطہ کر لیا گیا ہے۔ این آر او کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کو آگاہ کیا کہ معاملے کا علم ہونے پر وزیراعظم نے اس معاملے کا سختی سے نوٹس لیتے ہوتے انکوائری کیلئے دو رکنی کمیٹی بنا دی ہے، مجھے ہدایت کی گئی ہے کہ میں یہ معاملہ عدالت کے نوٹس میں لاﺅں۔ چیف جسٹس نے سوئس حکام کو دوسرا خط لکھنے پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ وزارت قانون اور سابق اٹارنی جنرل نے عدالت کو بے خبر رکھا یہ کھلی توہین عدالت ہے، ذمہ داروں کو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ اٹارنی جنرل نے کچھ دستاویزات عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ وزارت قانون کی جانب سے سپریم کورٹ کی منظوری سے سوئس حکام کو خط 5 نومبر 2012 کو لکھا گیا تھا کہ مقدمات کھولے جائیں تاہم وزارت نے 22 نومبر 2012ءکو ایک اور خط لکھ دیا جس میں سوئس حکام کو آگاہ کیا گیا کہ حکومت پاکستان کو مقدمات ری اوپن کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں اس لئے مقدمات نہ کھولے جائیں، یہ بھی لکھا گیا تھاکہ سابق چیئرمین احتساب بیورو سیف الرحمان اور اس وقت کے اٹارنی جنرل چودھری فاروق کی جانب سے ایس جی ایس اور کوٹیکنا کیس میں پارٹی بننے کیلئے جو خط لکھا گیا تھا اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ دوسرا خط اب وزارت قانون کے ریکارڈ میں موجود نہیں، پہلے خط کا سوئس حکام کی جانب سے جواب 4 فروری 2013ءکو وزارت قانون کو موصول ہو گیا تھا تاہم اسے 14 جون کو سامنے لایا گیا، مجھے 20 جون کو رات کے وقت گھر میں اطلاع دی گئی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت پاکستان نے مقررہ مدت گزرنے کے باوجود اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کیلئے پیٹر اینڈ پیٹر لا فرم کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ سوئس عدالت میں یہ م¶قف اختیار کیا جائے گا کہ مدت اس روز سے شمار کی جائے جب پاکستان میں جوابی خط منظر عام پر لایا گیا تھا۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تحقیقاتی کمیٹی سیکرٹری کابینہ ڈویژن سمیع سعید اور ڈی جی آئی بی آفتاب سلطان پر مشتمل ہے۔ چیف جسٹس کو بتایا گیا کہ جب دوسرا خط لکھا گیا اس وقت یاسمین عباسی سیکرٹری قانون تھیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو تو سوئس حکام کا خط موصول ہونے اور اسے کھولنے سے متعلق بھی نہیں بتایا گیا، ہمیں تو میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا۔ عدالت نے کہا کہ حکومتی کمیٹی کی انکوائری رپورٹ دو ہفتوں میں عدالت میں پیش کی جائے جس کے بعد مزید اقدامات کا سوچا جائے گا۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سابق سیکرٹری قانون یاسمین عباسی نے سپریم کورٹ کو آگاہ کئے بغیر سوئس حکام کو نیا خط لکھا، خط کا ریکارڈ بھی غائب ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 22 نومبر کو سوئس حکام کو لکھے گئے خط کا ریکارڈ وزارت قانون سے غائب کر دیا گیا ہے۔ ہمارے پاس یہ دستاویزات سوئٹزر لینڈ سے آئی ہیں، یہاں ان کا کوئی ریکارڈ نہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ سوئس حکام نے جوابی خط 4 فروری کو بھیجا جو اٹارنی جنرل کے گھر پر رات 24 جون کو موصول ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے پاکستان کے 6 کروڑ ڈالر کی واپسی کا معاملہ اٹھایا تھا، بظاہر اس طرح کا خفیہ خط لکھنا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا معلوم کیا جائے اس بات کا ذمہ دار کون ہے۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے بتایا کہ یہ خط سابق سیکرٹری قانون یاسین عباسی نے لکھا، اس حوالے سے دو متفرق درخواستیں دائر کی ہیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ دستاویزات کے غائب ہونے کی انکوائری کی جا رہی ہے، اٹارنی جنرل نے عدالت سے مہلت کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے تمام معاملات اور حقائق سپریم کورٹ کے علم میں لانے کی ہدایت کی ہے۔ آن لائن کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ خط میں ردوبدل توہین عدالت ہے، انکوائری کے بعد دیکھیں گے کہ کس کے خلاف کارروائی کرنی ہے۔ بی بی سی کے مطابق اٹارنی جنرل کے مطابق دوسرے خط میں کہا گیا تھا کہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات بند کر دئیے جائیں اور اس ضمن میں حکومت کو آگاہ کیا جائے۔ اس خط میں ی ہ بھی کہا گیا تھا کہ مقدمات کھولنے سے متعلق پہلا خط سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں لکھا گیا تھا۔ اس خط کے بعد سوئس حکام نے پاکستانی حکومت کو اسی ماہ آگاہ کر دیا تھا کہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات دوبارہ نہیں کھولے جا سکتے۔ بی بی سی کے مطابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ دوسرے خط کے بارے میں سوئس حکام کو خط لکھ دیا گیا ہے کہ اسے ایسے سمجھا جائے جیسے وہ خط لکھا ہی نہیں گیا۔ زرداری کے خلاف مقدمات اسی مرحلے سے شروع کئے جائیں جہاں روکے گئے تھے۔ اس کے لئے سوئس لا فرم کی خدمات حاصل کیں۔ آئی این پی کے مطابق عدالتی فیصلے کے تحت سوئس حکام کو دوسرے خط پر چیف جسٹس نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس خط کے ذمہ دار تمام کرداروں کو سخت ترین نتائج کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ وزارت قانون اور اس وقت کے اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو اندھیرے میں رکھا۔ وفاقی حکومت حود تحقیقات کرے کہ عدالتی احکامات کی توہین کس کی ہدایات پر کی گئی۔ عدالتی احکامات پر عملدرآمد کے لئے لکھے جانے والے قانونی خط کو غیر قانونی قرار دینے کی جسارت کرنے والوں کے خلاف کیوں نہ فوجداری مقدمات قائم کئے جائیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جنیوا کی عدالت کے حکم سے پتہ چلا کہ اس طرح کا خط جینوا میں تعینات سفیر محمد سلیم کو لکھا گیا جنہوں نے یہ خط پاکستانی قونصل خانے کو پہنچایا۔ یہ واضح ہو چکا ہے کہ سابقہ وفاقی حکومت کی ہدایت پر ہی ایسا خط لکھا گیا، جینوا میں پاکستانی سفیر کے ساتھ سابق سیکرٹری قانون اور سابق وزیر قانون کے رابطے تھے، حکومت پاکستان کو اس خط بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا، جسٹس اعجاز چودھری نے استفسار کیا کہ کیا یہ آصف علی زرداری کے مقدمات تھے یا حکومت پاکستان کے، اٹارنی جنرل سمیت سب کو اندھیرے میں رکھا گیا، کیوں نہ فوری طور پر سابق سیکرٹری قانون کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں۔ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو 30 جون سے قبل نئے چیئر مین نیب کی تقرری کےلئے مشاورت کا عمل مکمل کرنے کی ہدایت کر دی، عدالت نے کہا ہے کہ حکومت کو فوری طور پر چیئرمین نیب کی تقرری کرنی چاہئے تھی حکومت کے ساتھ مسئلہ کیا ہے، وہ کیوں چیئرمین نیب کا تقرر نہیں کرتی؟ عدالت کو بتایا جائے کہ آخر ایک ماہ گزرنے کے باوجود چیئرمین کی تقرری کیوں نہیں کی جا سکی؟ بغیر چیئرمین کے ایک ماہ سے نیب کیسے چل رہا ہے؟ کسی نے بھی چیئرمین نیب کی تقرری کیلئے سنجیدہ کوشش نہیں کی، اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دلایا کہ نئے چیئرمین کی تقرری کا عمل جلد مکمل کر لیا جائے گا۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کے کے آغا نے عدالت کو بتایا کہ نیب کے امور نئے چیئرمین کی تقرری میں تاخیر کے باعث متاثر ہو رہے ہیں ۔ جب سرے سے چیئرمین موجود نہ ہو تو قائم مقام چیئرمین نہیں بنایا جا سکتا۔ چیئرمین کی عدم موجودگی میں نہ تو کسی کے خلاف ریفرنس دائر کیا جا سکتا ہے نہ کسی کو گرفتار کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔ کنٹریکٹ ملازمین کا کنٹریکٹ ختم ہو رہا ہے ان کی میعاد میں توسیع کا معاملہ بھی لٹک گیا ہے۔ چیئرمین نیب کے بغیر نیب کی حیثیت مردہ گھوڑے جیسی ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ عدالتی وقفہ کے بعد وفاقی حکومت سے ہدایت لے کر بتایا جائے کہ نئے چیئرمین نیب کی تقرری کیوں نہیں کی جا رہی۔ عدالتی بریک کے بعد اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ نئے چیئرمین نیب کی تقرری کے لئے مشاورت کا عمل جلد از جلد مکمل کر لیا جائے گا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ چیئرمین نیب کی عدم موجودگی میں ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے اس پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے عدالت کو بتایا کہ قانون کے تحت زیادہ تر اہم ذمہ داریاں مجھ پر عائد ہوتی ہیں۔ عدالت نے کہا کہ نیب آرڈیننس کے تحت نئے چیئرمین کی تقرری کا عمل ایک ماہ کے اندر مکمل کرنا ضروری ہے۔ 28 مئی کو سابق چیئرمین نیب کی تقرری کالعدم قرار دی گئی تھی اب تک نئے چیئرمین کی تقرری کےلئے کیا گیا ہے‘ کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ مقدمے کی سماعت کے بعد عدالت نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ نئے چیئرمین نیب کی تقرری کے لئے مشاورتی عمل جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ مقدمہ کی سماعت دو ہفتوں تک ملتوی کر دی گئی۔ واضح رہے کہ روزنامہ نوائے وقت اور دی نیشن نے سوئس حکام کو لکھے گئے دوسرے خط کے بارے میں 22 جون کو خبر دے دی تھی۔ سوئس پراسیکیوٹرز نے بتایا تھا کہ پہلے خط کے بعد پاکستان کی جانب سے مکس پیغامات ملے جن میں یہ کہا گیا تھا کہ سوئس کیسز داخلی سیاسی صورتحال کے باعث ہیں اور ان پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ دریں اثنا سوئس مقدمات کی بحالی کیلئے تیار کی گئی حکومت پاکستان کی اپیل کا متن سامنے آیا ہے۔ اپیل میں سوئس پراسیکیوٹر کے فیصلے کے تینوں نکات کو چیلنج کیا گیا ہے۔ اپیل میں کہاگیا ہے کہ مقدمات زائد المیعاد ہونے کا مو¿قف درست نہیں ہے۔ سابق سیکرٹری قانون نے 22 نومبر 2010ءکا خط قانونی اختیار کے بغیر لکھا سوئس پراسیکیوٹر کو یہ خط زیر غور نہیں لانا چاہئے تھا۔ مقدمات واپس لینے کیلئے 25 اگست 2008ءکا ملک قیوم کا خط بھی غیر قانونی تھا۔ 1997ءسے 2008ءکا عرصہ مقدمے کی میعاد سے خارج کیا جانا چاہئے۔ سپریم کورٹ نے 16 دسمبر 2009ءکو مقدمات دوبارہ کھولنے کیلئے خط لکھنے کا حکم دیا، مخصوص مقاصد کے تحت خط لکھنے کے حکم میں تاخیر کی گئی جس پر منی لانڈرنگ کا الزام تسلیم شدہ سنگین جرم ہے۔ پاکستان نے حالیہ قانون سازی میں منی لانڈرنگ کو دہشت گردی قرار دیا ہے۔ مقدمات کو 24 اگست 2008ءکے مرحلے پر بحال کیا جائے۔ حکومت میں ہونے کے باعث کسی نہ کسی بہانے عدالتی کارروائی کو ٹالتے رہے۔ سوئس حکام کو سابق سیکرٹری قانون یاسمین عباسی کی جانب سے لکھے گئے خط کی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں صدر کو آرٹیکل 248 کے تحت مکمل تحفظ اور استثنیٰ حاصل ہے۔ 1997ءمیں سیف الرحمن اور اٹارنی جنرل چودھری فاروق کے لکھے گئے خط غیر قانونی تھے۔ احتساب عدالت نے کوٹیکنا کیس میں اے آر صدیقی کو بری کر دیا۔ عدالت نے کیس میں آصف زرداری کا استثنیٰ قبول کیا۔ ان مقدمات میں یہ نہیں کہاگیا کہ آصف زرداری نے کوئی کرپشن کی۔ پری شپمنٹ ٹھیکے دینے میں حکومت کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔ منی لانڈرنگ سے متعلق پاکستان میں کوئی جرم سرزد نہیں ہوا۔ حکومت پاکستان یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ سوئس حکام مقدمات نہیں کھول سکتے۔پاکستان کی جانب سے جیکس پائتھن سوئس کورٹ میں اپیل دائر کرینگے۔ اپیل میں کہا گیا ہے کہ جتنی دیر سوئس کیسز بند رہے وہ مدت شامل نہ کی جائے۔ حکومتوں کے درمیان اس طرح کی مدت کا اطلاق نہیں ہوتا۔ دوسری جانب صدر زرداری کے خلاف سوئس مقدمات دوبارہ کھولنے کیلئے حکومت پاکستان نے 7 وکلا کی خدمات حاصل کر لی ہیں۔ حکومت نے سوئٹزرلینڈ میں پاکستانی سفارتخانے سے رابطہ کیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ مقدمات کی بحالی کیلئے ازسر نو جائزہ لیں۔ سفارتخانہ کے حکام نے کہا ہے کہ مقدمات دوبارہ کھولنے کیلئے وکلاءکی خدمات حاصل کی ہیں۔ وکلا کی ٹیم کیس کیلئے 3 آپشنز پر غور کر رہی ہے جس میں ایک آپشن یہ ہے کہ 2011ءکے ساﺅتھرن لیجسلیشن کے تحت مقدمات دوبارہ کھولنے کی اپیل کی جائے۔ دوسری آپشن کے تحت سوئس حکومت سے پاکستان بطور ڈیمرج پارٹی اپیل کرے کہ اس کی سرحد سے باہر 60 ملین ڈالر کے اثاثے واپس کئے جائیں تیسرے میوچل لیگل اسسٹنس کے تحت پاکستان میں بھی کریمنل پروسیڈنگ شروع کی جائے۔ نجی ٹی وی کے مطابق حکومت نے سوئس مقدمات بند کرنے کے خلاف اپیل کے حوالے سے پاکستان کی ایک لا فرم اور سوئٹزر لینڈ میں وکلا کی خدمات حاصل کیں۔ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ مقدمات بند کرنے کے سوئس حکام کے فیصلے کے خلاف اپیل کے لئے وزیراعظم نے وزارت قانون کی سمری کی منظوری دی ہے۔ حکومت نے جنیوا میں مسٹر جیکوس پے تھون کو وکیل کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پے تھون اینڈ پیٹر وہی لا فرم ہے جس نے 1997ءسے 2008ءتک جنیوا میں مقدمہ لڑا تھا۔ وزارت قانون کے سیکرٹری سردار رضا خان نے یہ سمری 20 جون کو وزیراعظم کو بھیجی جس کی منظوری وزیراعظم نے 21 جون کو دی۔ وزیراعظم نے جنیوا میں وکیل کی معاونت کے لئے Amherst and Browa لا فرم کے منور اختر ایڈووکیٹ کو وکیل مقرر کرنے کی منظوری دی۔ 21 جون کو وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ نے سوئٹزر لینڈ میں پاکستانی سفیر سے بات کی۔ ذرائع کے مطابق جنیوا میں وکیل نے حکام سے کہا ہے کہ وہ دوبارہ مقدمات کھولنے کے حوالے سے حکومت کا یہ م¶قف کہ نئی حکومت کے علم میں یہ معاملہ تاخیر سے لایا گیا، مقدمہ دوبارہ کھولنے کے لئے ناکافی ہو گا کیونکہ سوئس اتھارٹیز نے پاکستانی وکیل کو آگاہ کر دیا تھا اور یہ اسی طرح ہے کہ حکومت پاکستان کو آگاہ کر دیا جائے تاہم اس کے باوجود انہوں نے اپنی کوشش کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
”زرداری کے خلاف مقدمات نہ کھولے جائیں“ سوئس حکام کو دوسرا خط‘ ذمہ دار سنگین نتائج بھگتیں گے : چیف جسٹس
Jun 27, 2013