مقبوضہ کشمیرمیں چھائے۔ خوف ودہشت کے پُراسرار سائے

جنوبی ایشیا میں بھارت اپنی دیرینہ جنگجویانہ ذہنیت کو بدلنے کو تاحال باز نہیں آیا نئی دہلی کی یہ 66-67 سالہ کہنہ اور فرسودہ حکمت ِ عملی ہے نجانے کیوں ہمیں یہ یقین نہیں آتا کہ بھارت اپنی اشتعال انگیز یوں کی اِس وحشیانہ حکمت عملی سے کبھی باز بھی آسکتا ہے بھارتی وزیردفاع منوہر پاریکر کے اس اشتعال انگیز بیان کو آسانی سے کوئی کیسے بھلا سکتا ہے جس میں مسٹر پاریکر نے کہا تھا کہ’’دیش میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے دہشت گردوں کو استعمال کیا جائے گا‘‘نئی دہلی حکومت کی یہ کتنی بدقسمتی ہے کہ مودی کابینہ کے وزراء دہشت گردانہ اقدامات کی کھلی حمایت کرنے پر کس قدر آزادانہ اظہار کررہے ہیںمنوہر پاریکر نے اپنے اِسی بیان میں یہ بھی کہا تھا ’ دہشت گردی کا مقابلہ دہشت گردی سے کیا جائے گا کیونکہ کانٹے سے کانٹا نکلتاہے‘‘کانٹے سے کانٹا کیسے اور کیونکر نکلتا ہے اور نکالا کیسے جاسکتا ہے یہ ہم نے اُنکے اِس ’فسطائی بیان ‘ کے فوراً بعدمقبوضہ جموں وکشمیر کے کئی علاقوں میں ’گمنام ‘ ٹارگٹ کلنگ کے حالیہ سامنے آنیوالے واقعات سے بخوبی لگالیا واقعی شری منوہر نے بالکل صحیح کہا اور پھر کرکے دیکھا بھی دیا ریاستی دہشت گردی کا رونا مظلوم ومحکوم کشمیری برسہا برس سے روتے چلے آرہے ہیں نئی دہلی نے کبھی تسلیم نہیں کیا تھا کہ جموںو کشمیر میں ہونے والی دہشت گردی میں مرکزی فورسز ملوث ہوتی ہیں مگر نئی دہلی کے پاس یقینا اِس سوال کا معقول اور ٹھوس جواب نہیں ہوگا وہ اِس لئے کہ نریندر مودی کی کابینہ کے وزیر ِ دفاع منوہر پاریکر نے کشمیر میں قابض اپنی سیکورٹی فورسز کو کھلی چھوٹ دیدی ہے اب اُن سے کوئی پوچھ گوچھ نہیں ہوگی وہ جس کشمیر ی مسلمان کو چاہئیں اور جیسے چاہئیں بلا اشتعال موت کی نیند سلا دیں آجکل مقبوضہ کشمیر میں بقول بھارتی وزیر دفاع کے‘ ریاستی دہشت گردانہ اقدامات کو تیزی سے بروئے ِ کار لانے کے ظلم وستم کے بہیمانہ استحقاق کا مظاہرہ انسانی جانوں کو موت کی نیندیں سلا کر نئی دہلی اسٹیبلشمنٹ کو مطمئن کرنے میں وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جارہے ہیں، عالمی میڈیا میں اِس بارے میں آنیوالی خبروں کا جائزہ لیجئے مثلاً سوپور میں ہوئی حالیہ ہلاکتوں کے حوالے سے بھارتی محکومیت سے اپنی نسلی وملی اور ثقافتی آزادی کی جدوجہد کرنیوالی ایک معروف تنظیم کے مطابق بھارتی سیکورٹی فورسز نے اُنکی تنظیم کے دو افراد کو گرفتار کرنے جن کے سر قیمت 20 لاکھ روپے رکھی گئی تھی اور اُنکی تصویر لگے پوسٹر ہر کشمیری شہر میں عام پبلک جگہوں پر لگادئیے گئے تھے ظلم وستم اور سفاکیت کی حد پھلانگ کر بی ایس ایف نے دوکشمیر ی مسلمان نوجوانوں کو دیکھتے ہی مشین گن کی بوچھاڑوں سے بھون ڈالا جس میں ایک بے قصور عرفان شاہ نامی ایک نوجوان تھا جو کپواڑہ کا ایک دکاندار تھا قصور اُس کا صرف اتنا تھا کہ اُسکی شکل و شبہات متذکرہ بالا تنظیم کے ایک مطلوب فرد سے ملتی تھی وہ معافیاں مانگتا رہا اِسی طرح سے ایک کشمیری نوجوان کو بھارتی سیکورٹی فورسز نے شہید کرڈالا ’دہشت گردی کی روک تھام کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کے نزدیک مذہبی فرائض بے معنیٰ ہوا کرتے ہیں اُن کے دل پتھروں کے اور اُن کی آنکھوں میں نمی کی بجائے ہمیشہ خون اترا رہتا ہے، مقبوضہ کشمیر میں ’مذہبی جبرو تشدد ‘ کا متعصبانہ وحشی کھیل شروع ہوچکا ہے مشہور ِ زمانہ کشمیری سیبوں کی کاشت اور بھارت مخالف جذبات کے لیے مشہور سوپور قصبہ میں 25 مئی سے ہلاکتوں کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ 16 جون تا20-21 جون تک جاری رہا اس عرصہ میں موبائل فون کی کمپنیوں کے لیے اپنی زمینوں میں ٹاور نصب کرنیوالے دو شہریوں سمیت چھ مزید بے گناہ کشمیری بھارتی سیکورٹی فورسز کی قاتلانہ جبلتوں کا شکار بنے، نئی دہلی کے انتہا پسند حکمرانوں نے خود کو آجکل دہشت گردی کی ’ٹاپ گیر‘ کی دوڑ دنیا کے دہشت گردوں کو پیچھے چھوڑنے کی ٹھانی ہوئی ہے دنیا کو دکھانے کے لیے بھارت کے بانی نیتاؤں نے اپنے قومی پرچم پر ’پہیہ ‘ کا نشان ضرور بنوادیا نہ خود وہ ’پہیہ‘ کی تاریخی اہمیت وافادیت کو سمجھے نہ اپنی آنے والی سیاسی قائدین کے لیے کوئی سبق چھوڑ کر گئے نہرو سے لے کر نریندر مودی تک سب نے کشمیر کے مسئلے کو پُرامن حل کرنے کی ضرورت نہ کل ضرور سمجھا نہ آج کے بھارتی قائدین سمجھنا چاہتے ہیں نریندرمودی انسانی احترام کی تاریخ کو پیچھے چھوڑنے‘ اپنی خواہشات کو حقیقت سمجھنے اور اپنے ہندوتوا کے تصورات وخیالات کی بچکانہ بڑبڑاہٹ کو آج کی سیاست کا نام دیتے ہیں یہ سب اُنکی عالمی وعلاقائی سیاست کی ’کپکپاہٹ اور گھبراہٹ‘ کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے مقبوضہ جموں وکشمیر جب اُن کا مشن44 ہی ناکام ہوگیا تو اُنہوں نے ایک ایسے شخص کو کشمیر کا وزیر اعلیٰ بنا دیا جو ماضی میں بھی کشمیریوں کے انسانی حقوق کے گھٹیا ‘ قابل ِ نفریں اور مکروہ سودوں میں کافی کمیشن لے چلا ہے مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک کے سبھی قائدین نے کشمیر کے اِس کٹھ پتلی وزیراعلیٰ سے استعفے کا غلط مطالبہ نہیں کیا یقینا اِس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ’ ’مفتی سعید کو اقتدار میں رہنے کا اب کوئی اخلاقی جواز نہیں رہا ‘ وہ اگر اب بھی کْرسی سے چمٹا رہنا چاہتا ہے تو، پھر لوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ بھارتی ایجنسیوں کی طرف سے بنائے گئے بے گناہ کشمیریوں کے قتل کے ان منصوبوں میں وہ ان کے اعانت کار ہیں۔‘‘
مفتی سعید نے سوپور کی تشویش ناک صورت حال پر ابھی تک ذرا لب کشائی نہیں کی ہے غیر جانبدار عالمی میڈیا کے مطابق کشمیر میں 20 ہزار سے زائد ایسے شہری ہیں جن کا ماضی میں بالواسطہ یا بلاواسطہ آزادی کی مسلح مزاحمت کے ساتھ تعلق رہا ہے، ان میں سے بیشتر نے طویل قید کاٹنے کے بعد خاندانی زندگی کو ترجیح دی۔ نئی دہلی حکومت کی اگر ’کشمیر پالیسی ‘ اقوام ِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق اپنا رخ تبدیل نہیں کرتی تو کشمیر کا مسئلہ یونہی سلگتا رہے گا کشمیر میں فوجی اور نیم فوجی دستے یونہی نئی دہلی حکومت کی ایماء پر انسانی حقوق کی پامالیوں کے مرتکب ہوتے رہیں گے انسانی خون کی ارزانی جو کشمیر میں بھارتی سیکورٹی فورسنز کے ہاتھوں ہورہی ہیں وہ دیش کے پورے ڈھانچہ کو ڈھانے کا سبب ضرور بنے گی ۔

ای پیپر دی نیشن