غریبوں کی ماں مر گئی ہے

کراچی میں ایک قیامت آئی اور گزر گئی۔اپنے پیچھے سیکڑوں بے گوروکفن لاشیں ٗآنسو ٗآہیں ٗسسکیاں ٗوسوسے ٗاندیشے اورشکایتیں چھوڑ گئی۔اس بارموسم گرمانے انگڑائی لی تو سورج زمین پر مہمان ہو گیا اور چند ہی دنوں میں زمین کی کایاپلٹ کررکھ دی۔ آنا فانا کئی سو جانیں حبس ٗ لو ٗپیاس اور بے کسی کی نذر ہو گئیں۔ موسم کی وحشتوں کی بھینٹ چڑھنے والے ان سینکڑوں لوگوں میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو کسی ثروت مند گھرانے کا چشم و چراغ ہو۔ بے بسی کے عالم میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کو گلے لگانے والے یہ سب کے سب بے چراغ گھروں کا اجالا تھے جو اپنے جانے کے بعدکئی سوال تشنہ چھوڑ گئے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے ٗ فاقہ مستی جن کا پیشہ اور غربت جن کی تقدیر بنا دی گئی تھی۔ قیامت خیز گرمی میں یہ عاجز بندے کڑکتی دھوپ سے بچنے کیلئے سائبان اور پانی کی چند بوندوں کی آس لئے موت کی کالی چادر اوڑھ کر سرد خانوں کی زینت بن گئے۔ انکے لواحقین کی استطاعت کا یہ عالم تھا کہ وہ انکی تجہیز و تکفین اور تدفین کیلئے پھوٹی کوڑی کا بھی بندوبست نہ کرسکے۔ اتنی آسانی سے موت کا مزہ لوٹنے والوں کیلئے سرد خانے اورقبرستان بھی تنگ پڑ گئے۔ سورج آگ برساتارہا اور ہماری حکومتیں ٗحکمراں اور ادارے قدرت کی اس ستم ظریفی پردم سادھ کر بیٹھ گئے جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔سندھ کے حکمراں دیارغیر کوچلتے بنے ٗ وزیراعلیٰ سندھ کو چارپانچ روز بعد خیال آیا کہ ہیٹ اسٹروک سے متاثرہ افراد کی دل جوئی کا فوٹو سیشن تو ہواہی نہیں۔ ایک ہفتہ سے زیادہ ہوگیا ہے ٗسندھ میں موت کارقص ابھی تک جاری ہے ٗابھی تک ملک کے وزیراعظم یاکسی وفاقی وزیر کو توفیق ہی نہیں ہوئی کہ آکرسینکڑوں متاثرہ خاندانوں میں سے کسی ایک متاثرہ خاندان سے خیریت ہی دریافت کر لیتے۔حزب اختلاف بھی پارلیمان سے باہر نوحے پڑھنے کے علاوہ عملاً کچھ نہیں کر سکی اس لئے کہ مرنے والے غریب پاکستانی تھے ٗغلام ابن غلام تھے ٗان کی کوئی سیاسی یا خاندانی شناخت نہیں تھی ٗ یہ نہ مسلم لیگی تھے ٗنہ پیپلزپارٹی کے اور نہ ان کا تعلق ایم کیوایم یا تحریک انصاف سے تھا ٗنہ انکا تعلق کسی خانوادے سے تھا ٗیہ محض مفلوک الحال انسان تھے اس لئے بے موت مارے گئے۔ البتہ عمران خان چارروزبعد آئے اور زبانی جمع خرچ اور روایتی الزام تراشی کے ڈونگرے برسا کر چلتے بنے۔ شہر میں کسی سیاسی جماعت کو توفیق نہیں ہوئی کہ اسکے رہنما یا کارکن بڑے پیمانے پرپانی کی بوتلیںاور امدادی اشیا لے کر غریب آبادیوں میں پھیل جاتے اور گرمی کے مارے لوگوں کو سائبان اور پانی فراہم کرتے۔اتنی بے حسی ٗ میں نے تو کبھی ایسا سوچا بھی نہ تھا۔کراچی میں اچانک پڑنے والی گرمی کا پس منظرکیا ہے ٗیہ موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ ہے یا کسی ناگہانی آفت کا نتیجہ کہ ایک خاص علاقے پر اس بار سورج نے وہ قہر ڈھایاکہ سب کی چیخیں نکل گئیں۔ اس حوالے سے جامعہ کراچی کے شعبہ ماحولیات کے استاد ڈاکٹر معظم علی خان نے بتایا کہ گرین گیس ہائوس افیکٹ (Green Gas House Effect )کے نتیجے میں سورج کی حدت زمین کی نچلی سطح سے فضا کو محبوس کردیتی ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی کا سبب بن جاتی ہے اور نتیجے میں گرمی حد سے تجاوز کر جاتی ہے اور زمینی حرارت بھی دوچند ہوجاتی ہے اور یہ گلوبل وارمنگ کے ذیل میں آتا ہے۔انہوں نے خدشہ ظاہرکیا کہ اس صورتحال میں گلیشیئر تحلیل ہوسکتے ہیں اور ملک میں سیلابی کیفیت بھی پیدا ہوسکتی ہے لیکن سردست یہ کیفیت عارضی دکھائی دیتی ہے۔پروفیسر ڈاکٹر معظم علی خان اورانکے شریک سائنسدان عامر عالمگیر کا کہنا تھا کہ پچھلے ساٹھ ستر سالوں میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت میں تو اضافہ نہیں ہوا البتہ کم سے کم درجہ حرارت کی اوسط میں اضافہ متوقع دیکھا گیا ہے اور یہ رجحان آنیوالے سالوں میں مزید بڑھتا رہے گا۔ انہوںنے مزید کہا کہ اس بارسندھ کے ساحلی علاقوں میں 10 سے 15 فیصد کم مون سون کی بارشیں متوقع ہیں جو سندھ کے زیریں علاقوں کیلئے نقصان کا باعث ہوسکتی ہیں۔ سندھ کے ساحلی علاقوں میں بارشیں عموماً Cloud Burst کی صورت میں ہونے کی توقع کی جا رہی ہے ۔ایک عارضی شمسی طوفان نے ہماری زندگی میں زہر گھول دیا ہے اور ہماری انتظامیہ اور اداروں کی کارکردگی کی قلعی کھول دی ہے۔ اس قہرآلود موسم میں بجلی اور پانی کی نایابی نے بحران کی شدت میں اور سنگینی پیدا کر دی ہے۔ ذمہ دار ادارے ملبہ ایک دوسرے پر ڈال کر جان چھڑانے کی تگ ودومیں ہیں۔ سیاستدانوں کا بھی برا حال ہے ٗ وہ بھی کیچڑ سے بھرے مگ پارلیمان میں ایک دوسرے پر اچھال رہے ہیں لیکن کسی کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ ٹکٹ کٹا کر کراچی آتے اور غریبوں کی بستیوں میں جا کر غریبوں کے زخموں پر مرہم رکھتے۔ اندیشہ ہے یہ کہانی اگلے سال پھر دہرائی جا سکتی ہے ٗکیا ہم ایک سال بعد پھر موت کا کنواں سجانے اور ہزاروں افراد اسکی نذر کرنے کیلئے تیار ہیں؟سندھ میں غریب لوگ تواتر سے سورج کی غیرمعمولی تپش کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں۔ ملک سے غربت تو ختم نہیں ہوئی ٗ غریب بڑی تیزی سے ختم ہورہا ہے۔ ابھی چند دنوں کی بات ہے ہم قدرتی آفات میں توتومیں میں چھوڑ کر ٗسارے گروہی ٗ علاقائی ٗ لسانی اختلافات اور مفادات ترک کرکے ایک ہوجایاکرتے تھے ٗنہ جانے کیا ہواکہ اس بار وہ روح ہی ہمارے بدن سے کھینچ لی گئی اور اس بار توباہر سے بھی کسی نے اشک شوئی نہیں کی ٗ سب نے غریبوں کو مرنے کیلئے آزاد چھوڑ دیا ہے۔ کراچی کو دوبارہ روشنیوں اورامن و آشتی کا شہربنانے کے سب دعویداروں نے شہر کو لاوارث چھوڑ دیا ہے۔ ’’منی پاکستان‘‘کراچی کو اس کی غریب پروری کے سبب ’’غریبوں کی ماں‘‘ کہا جاتا تھا ٗموت کے اس موسم میں کوئی بے کسوں کا پرسان حال نہیں ٗلگتا ہے غریبوں کی ماں مر گئی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...