حضرت علی المرتضیٰؓ عید کی نماز پڑھ کر گھر تشریف لائے تو چھوٹی بیٹی کے گلے میں قیمتی ہار دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ آپؓ نے پیار سے اسے اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ بیٹی یہ ہار کہاں سے حاصل کیا ہے۔ ننھی صاحبزادی نے بتایا کہ بیت المال کے خازن ابو رافع نے یہ ہار اس شرط پر دیا ہے کہ میں عید کے موقع پر اسے استعمال کرنے کے بعد واپس بیت المال میں جمع کروا دوں گی۔ آپ ؓ نے یہ سن کر فوراً خازن کو طلب کیا۔ اور اسے سخت پرسش کی۔ خازن نے کہا کہ ہار بیت المال میں بے مصرف پڑا تھا میں نے اس میں کوئی حرج نہیں جانا کہ آپکی بیٹی عید کے موقع پر استعمال کر کے اسے واپس بیت المال میں جمع کروا دے۔ آپؓ نے فرمایا کیا یہ ہار کبھی کسی اور کو بھی دیا گیا ؟ خازن نے نفی میں جواب دیا آپؓ نے فرمایا یہ ہار مسلمانوں کی امانت ہے جسے تم نے ان کی اجازت کے بغیر صرف میرے منصب کی وجہ سے دیا ہے۔ جس کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں۔ آپ نے فورا بیٹی کے گلے سے ہار اتروا کر خازن کے حوالے کیا اور اسے سخت سرزنش کرتے ہوئے فرمایا کہ آئیندہ ایسی حرکت کی تو تمھیں سخت سزا دی جائے گی۔
سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ دیگر خلفائے راشدین کی طرح بیت المال کی ہر چیز کو پوری قوم کی امانت سمجھتے تھے۔ اور ذاتی تصرف کو کسی صورت میں بھی برداشت نہ کرتے تھے۔ حضور نبی اکرمؐ اور خلفائے راشدین کے دور میں عاملین زکوٰۃ اور دیگر محاصل وصول کرنے والوں کو ملنے والے تحائف بیت المال میں جمع کیے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ ایسے ہی ایک عامل زکوٰۃ نے زکوٰۃ کا مال جمع کروانے کے بعد تحائف کو اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی تو حضور نبی اکرمؐ نے استفسار فرمایا کہ یہ مال تم الگ کر کے کیوں لے جا رہے ہو؟ اس عامل نے بتایا کہ یہ مال مجھے تحفے میں دیا گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا اگر تمھارے پاس عہدہ نہ ہوتا تو کیا تمھیں یہ تحائف ملتے ؟ تمھیں یہ تحائف تمھارے حکومتی منصب کی وجہ سے ملے ہیں لہٰذا یہ پوری قوم کی ملکیت ہیں۔ یہ کہہ کر حضورؐ نے وہ تحائف بیت المال میں جمع کروا دیے۔
ان دنوں ترکی کی خاتون اول کی طرف سے پاکستان کے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے ملنے والے قیمتی ہار کی میڈیا میں بڑی گونج سنائی دی جا رہی ہے جسے سابق وزیر اعظم سرکاری مال خانے میں جمع کروانے کی بجائے اپنے گھر لے گئے تھے۔ سابق وزیر اعظم کو اس پر بجا طور پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ وہ ہار جس کی نیلامی سے کروڑں روپے حاصل کر کے سیلاب زدگان کی مدد کی جا سکتی تھی۔ اس کو معمولی رقم کے عوض وزیراعظم صاحب نے اپنے نام کروا لیا۔ حکمرانوں اور اعلیٰ افسروں کو غیر ملکی دوروں کے دوران تحائف ملنے کا یہ کوئی پہلا اور انوکھا واقع نہیں۔ انھیں ہمیشہ میزبان ملک کی طرف سے قیمتی تحائف سے نوازا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آج تک پاکستانی قوم ان تحائف کے بارے میں اندھیرے میں کیوں ہے؟ کیا وہ تحائف مال خانے میں جمع ہو چکے ہیں یا حکمرانوں کے گھر کی زینت بن گئے ہیں۔ پاکستان کے معروف صحافی جناب روف کلاسرا نے اپنے کالم میں غیر ملکی تحائف کے حوالے سے ایک عجیب اور انوکھے قانون کا انکشاف کیا ہے، جس کے مطابق صرف سولہ ہزار روپے دے کر قیمتی سے قیمتی تحفہ بھی حکومتی عہدیدار اپنے گھر لے جا سکتا ہے،جو کہ سراسر غلط ہے بدنیتی اور مفاد پرستی پر مبنی ہے۔ غیر ملکوں سے ملنے والے تحائف پوری قوم کی امانت ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی اہمیت کے حامل بھی ہوتے ہیں۔ انھیں کسی صورت بھی گھر لے جانے یا ذاتی مصرف میں لانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ تحائف کسی حکمران یا اعلی افسرکو صرف حکومتی عہدے اور منصب کی وجہ سے ملتے ہیں نا کہ ان کی ذاتی حیثیت کی وجہ سے۔ یوسف رضا گیلانی کے حوالے سے ہار کا معاملہ منظر عام پرآگیا ہے لیکن عوام ان دیگر تحائف کے بارے میں جاننے کا بھی حق رکھتی ہے۔ جو وقتاً فوقتاً غیر ملکی دوروں کے دوران ملتے رہے۔ ان کا سراغ لگانے اور حقائق عوام کے سامنے لانے کے لیے ایک کمیشن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ یہ تحائف تاریخی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں اس لیے ایک ایسا میوزیم بنانے کی ضرورت ہے جس میں ان تحائف کو محفوظ کر دیا جائے۔ انھیں اس میوزیم میں مکمل ہسٹری کے ساتھ رکھا جائے۔ سولہ ہزار والا قانون جو کہ مفاد پرستی کے سوا کچھ نہیں اس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی مفاد کی خاطرانھیں ایثار اور قربانی کا شیوہ اپنانا چاہیے شہاب نامے میں بیان کردہ ایک مفلوک الحال بوڑھے کا واقعہ شائد ہمارے حکمرانوں کو ایثار اور حب الوطنی کا سبق دے سکے۔ قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں قیام پاکستان کے وقت قومی خزانہ خالی تھا ایک روز میر پور آزاد کشمیر کے گردو نواح میں ایک بوڑھا مفلوک الحال شخص اپنی بیوی کے ہمراہ ملا۔ جن کے کپڑے پھٹے پرانے تھے اور جن کے جوتے بھی ٹوٹ چکے تھے۔ وہ گدھے پر کچھ سامان لاد کرکہیں لے جارہے تھے۔ انھوں نے قدرت اللہ شہاب کو روکا اور ان سے پوچھا کہ بیت المال کہاں ہے۔ تو قدرت اللہ شہاب نے پوچھا کہ بیت المال میں تمھارا کیا کام ہے۔ انھوں نے اپنی سادگی اور معصومیت میں کہا کہ ہم دونوں میاں بیوی نے مل کر میر پور کے ملبے سے کرید کرید کر سونے اور چاندی کے زیورات کی دو بوریاں جمع کی ہیں اور اس کو بیت المال میں جمع کروانے جا رہے ہیں۔ قدرت اللہ شہاب نے انکو اپنے ہمراہ جیپ میں بٹھا لیا اور بیت المال لے گئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مجھے تا عمر اس بات پر شرمندگی ہوتی رہی کہ جن کو سر آنکھوں پر بٹھانا چاہیے تھا میں ان کے برابرسیٹ پر بھی کیوں بیٹھا۔ ایسے عظیم لوگ جنھوں نے قومی خزانہ بھرنے کے لیے اپنی غربت اور ضعیف العمری کے باوجود اتنا کٹھن کام کیا توکیا ہمارے ارباب اختیار زندگی کی تمام آسائیشیں اور دولت کے انبار رکھنے کے باوجود مفت میں ملنے والے تحائف کو قومی خزانے میں جمع نہیں کروا سکتے۔