آج کل ترک خاتون اول کے ہار کا تذکرہ ہے جو انہوں نے 2010ء میں سیلاب زدگان کی بے چارگی دیکھ کر اپنے گلے سے اتار کر دے دیا تھا۔ اس خاتون اول پر افسوس ہے کہ ڈوبتے ہوئے اپنے مویشی کو بہہ کر جاتے ہوئے اپنے کچے کوٹھوں کو گرتے ہوئے دیکھ کر غریبوں کو ان کا نام لینے کی کیا ضرورت تھی۔ کوئی ہار ان غریبوں کے گھر میں تھا بھی تو وہ بہت کم قیمت تھا اور بچی کے جہیز کے لئے تھا۔ وہ بھی سازشی پانیوں نے نگل لیا تھا۔ وہ ہار نادرہ نے خریدا۔ کوئی عام کسان پینڈو آدمی سنے تو سمجھے کہ یہ بھی کسی حکمران یا افسران کی بیگم صاحبہ ہو گی۔ میڈم نادرہ مگر بعد میں عمران خان کے واویلے اور دھرنے سے پتہ چلا کہ یہ تو انگوٹھوں کے نشان چیک کرنے والا ادارہ ہے۔ شناختی کارڈ بناتا ہے۔ اتنا متحرک ہے کہ کئی بھارتی لوگوں اور دہشت گردوں کے شناختی کارڈ بھی بنا دیے کہ وہ جو کچھ پاکستان میں کرنا چاہتے ہیں آسانی سے کر لیں۔ پھر اس ہار پر گیلانی صاحب کی اہلیہ کی نظر پڑی تو وہ انہیں پسند آ گیا۔ نااہل ہونے والے صدر زرداری کے ملازم وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خاندان کو ایم بی بی ایس (میاں بیوی بچوں سمیت) کہتے تھے کہ سب مل کر لوٹ مار کرتے تھے۔ ورنہ اس خاندان میں کوئی کمپائونڈر بھی نہیں ہے مگر برطانیہ کے بڑے ڈاکٹر ان کے دوست ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ جسٹس افتخار چودھری نے گیلانی صاحب کو توہین عدالت کے لئے نااہل کیا۔ انہیں کرپشن اور لوٹ مار کے لئے نااہل کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔
وہ ہار وزیراعظم کی خواہش پر ان کے گھر پہنچا دیا گیا۔ پھر جب وہ نااہل ہو کر ’’صدر‘‘ زرداری کی رضامندی سے نکلے تو ملتان میں اپنے گھر لے گئے۔ جب گیلانی صاحب اڈیالہ جیل میں تھے تو اپنی گھڑی بیچ کر بچوں کی فیس دی تھی۔ انہوں نے سوچا ہو گا کہ ایسا موقع پھر بھی آ سکتا ہے تو بیچنے کی کوئی چیز ہاتھ میں ہونا چاہئے۔
مگر میڈیا والوں نے سارے منصوبے پر پانی پھیر دیا اور اب ہار واپس کرنے کی یقین دہانی گیلانی صاحب نے کرا دی ہے۔ یہ سارا کام صرف ایک خبر پر ہوا ہے۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ ہمارے حکمران اور افسران سیلاب زدگان کے لئے آنے والی امدادی اشیاء کا کیا حشر کرتے ہیں۔ آج بھی کئی افسران کی بیویوں کے پاس وہ تحفے موجود ہیں جو مصیبت زدگان کے لئے دیے گئے تھے۔ مگر مجھے اور ایک دوسرے اخبار کے سینئر صحافی الیاس کو تقریباً 40 خط نما نوٹس اسلام آباد سیکرٹریٹ کیبنٹ ڈویژن کے ایڈمن آفس سے موصول ہو چکے ہیں۔ ہم 2008ء میں عمرے پر وزیراعظم کے ساتھ گئے تھے اور یقینی طور پر صدر بننے والے آصف زرداری بھی تھے۔
میں کبھی کسی حکمران کے ساتھ بیرون ملک نہیں گیا۔ جب عمرے کے لئے اطلاع ملی تو میں نے انکار کر دیا مگر میری بوڑھی ماں نے مجھے بلایا اور کہا کہ میں جانتی ہوں تم حکمرانوں کے ساتھ سرکاری دوروں پر نہیں جاتے مگر یہ عمرے کے لئے جو معاملہ ہے یہ بلاوہ کسی اور طرف سے ہوتا ہے۔ تم چلے جائو اور روضۂ اطہر پر میرے لئے اور اپنے گھر والوں کے لئے دعا کرنا۔ حضور کریمؐ کو میرا نیازمندانہ سلام پہنچانا۔ مجھے وہاں جانا کبھی نصیب نہ ہو گا۔ میرے نیاز بھرے سلام تو آپؐ تک پہنچ جائیں گے۔ میرا بیٹا آپؐ کے حضور حاضر خدمت ہے۔ اس طرح حاضری اور حضوری کا فرق مٹ جاتا ہے۔
میں رو دیا۔ امی کے قدموں پر ہاتھ رکھا اور تیار ہو گیا۔ مجھے سرکاری دوروں پر حکمرانوں کے ساتھ جانے کے پروٹوکول اور عیاشیوں کا پتہ نہ تھا۔ میں پروٹوکول اور عیاشی سے واقف ہی نہیں ہوں۔ میں صبح چلا تو ائر پورٹ پر مجھے سینئر صحافی دوست الیاس مل گیا۔ وہ بھی میری طرح پینڈو اور درویش ہے۔ جہاز لیٹ تھا اور ہم اسلام آباد والی سرکاری فلائٹ نہیں پکڑ سکتے تھے مگر مجھے یقین تھا کہ ہم ضرور روضۂ رسولؐ پر حاضر ہوں گے کہ میری امی نے مجھے سلام کی امانت پکڑوائی ہے۔ جو میں نے رسول کریم رحمت عالم حضرت محمدﷺ تک پہنچانا ہے۔
میں نے الیاس اور دوسرے لاہوری دوستوں سے کہا کہ ہم ڈی جی پی آر کے پاس چلتے ہیں وہ ہمیں کوئی ٹرانسپورٹ دیں گے اور ہم اسلام آباد پہنچ جائیں گے۔ تب محی الدین وانی ڈی جی پی آر تھے۔ انہوں نے حکومت کے خاص مہمانوں کو ایک ٹوٹی پھوٹی ویگن میں اسلام آباد بھجوایا۔ ہم پھر بھی ان کے ممنون ہوئے تھے۔ بعد میں وہ وزیراعظم کے سپیشل سیکرٹری بھی ہوئے اور انہوں نے بہت کچھ سمیٹا ہوگا۔ آج کل انہیں شہباز شریف نے لاہور واپسی بھی ایک ایسی ہی ٹوٹی پھوٹی ویگن میں ہوئی تھی۔
میں دس مرلے کے کوارٹر میں رہتا ہوں۔ یہاں میں آیا تھا جب 17 گریڈ میں تھا۔ اور 20 گریڈ میں یہیں ریٹائر ہوا ہوں۔ اب یہ کوارٹر میرے بیٹے کے نام ہے۔ بے چارہ الیاس سینئر صحافی ہونے کے باوجود اڑھائی مرلے کے گھر میں رہتا ہے۔
سعودی عرب میں افسران اور حکمران شاہی محل بھی گئے تھے مگر ہمیں کسی نے جدہ ہوٹل سے باہر نکلنے نہ دیا۔ وہاں ہمیں اب زمزم اور کھجوریں بھی کسی نے تحفہ میں نہ دیں۔ جو کچھ ملا افسران اور حکمران اپنے پاس رکھ لیتے تھے۔ پاکستان آنے کے بعد بھی ہمیں کچھ نہ ملا۔ نہ ہم نے طلب کیا۔ سعودی عرب سے آنے والے آب زمزم بھی نہ لا سکے۔ صرف امی تک یہ پیغام پہنچایا کہ میں نے آپ کا سلام سرکار دو عالم کی خدمت میں پہنچا دیا۔
کھرے سچے اچھے دل و دماغ والے دلیر اور غیرت مند چودھری نثار علی خان نے نااہل وزیراعظم گیلانی کے ہار کے لئے جو بات کہی وہ بہت دلچسپ تھی کہ سب صحافی بے ساختہ ہنس پڑے۔ چودھری صاحب نے کہا کہ گیلانی صاحب کی اطلاع کے مطابق وہ ہار ملتان سے پیدل چل پڑا ہے۔ انشااللہ جلدی اسلام آباد تک پہنچ جائے گا۔ میری گذارش ہے کہ اسلام آباد کیبنٹ ڈویژن نے ایک خط بھی یعنی نوٹس گیلانی صاحب کو نہ بھیجا کہ یہ تحفہ آپ کے پاس ہے۔ آپ ہمارے پاس جمع کرائیں۔ یہ تو میڈیا والے یہ خبر نہ نکالتے تو ہار کسی صورت میں سابق وزیراعظم کے گھر سے نہیں نکلوایا جا سکتا تھا۔ ترکی کی خاتون اول کے ہار پر حق پاکستانی خاتون اول کا ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم شوکت عزیز نے کروڑوں کے تحفے اپنے گھر سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ وہ اپنے دور میں شارٹ کٹ عزیز کے نام سے مشہور تھے۔ ہر حکمران نے یہ تحفے رکھے ہوئے ہیں۔
کیبنٹ ڈویژن کے جائنٹ سیکرٹری ایک نیازی صاحب ہیں۔ ان سے فون پر بات ہوئی۔ وہ مجھے جانتے ہیں۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ کوئی تحفہ میرے پاس نہیں ہے۔ نہ الیاس صاحب کے پاس ہے۔ آپ کا کام یہی ہے کہ آپ کسی شک کی بنیاد پر خط پہ خط لکھتے رہیں۔ ہمارے پاس کوئی تحفہ نہیں ہے پھر بھی آپ کو شک ہے اور آپ شک کا فائدہ ملزم کو نہیں دینا چاہتے تو اس نامعلوم تحفے کا تخمینہ بنا کہ ہمیں بھیج دیں۔ ہم کسی سے ادھار مانگ کر آپ کا حساب پورا کر دیں گے۔ مگر یہ تو نہ کریں کہ ہم سمجھیں آپ صرف یہی بیکار کام اسلام آباد سیکرٹریٹ میں کرتے ہیں۔ محمد حسن خان نیازی اچھے آدمی لگتے ہیں۔ انہوں نے بہت اچھے انداز میں بات کی۔ ان کا اندازحسب معمول افسرانہ تھا۔ وہ میرے قبیلے کے ہیں۔ مہربانی کریں۔ ورنہ چودھری نثار سے گذارش ہے کہ وہ ہماری سفارش کر دیں تاکہ ہمیں اس اذیت اور ذلت سے نجات مل جائے ورنہ سیکرٹریٹ والے مجھ پر اور الیاس پر مقدمہ چلوا کے ہمیں جیل بھجوائیں۔ آخر میں یہ بات کہ وہ ہمیشہ مجھے نوائے وقت کا رپورٹر لکھتے ہیں۔ یہ کالم اس لئے بھی ہے کہ اسلام آباد سیکرٹریٹ کے ایڈمن سیکشن کی معلومات کس قدر صحیح ہیں؟ تو تحفے کی غلطی یا غلط فہمی کی سزا ہمیں کیوں دی جا رہی ہے۔