اسلام آباد (رستم اعجاز ستی/ نامہ نگار) قانونی ماہرےن کے مطابق21وےں آئےنی ترمےم کے حوالے سے سپرےم کورٹ کا فےصلہ ملکی آئےنی تارےخ مےں انتہائی اہم اور دور رس نتائج کا حامل فےصلہ ہوگا، سےنئر قانون دان اکرام چودھری نے نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا موقف ہے کہ ملٹری ٹرائل کے حوالے سے آئےن مےں ترمےم آئےن کے بنےادی ڈھانچے سے متصادم اور بنےادی انسانی حقوق سے متصادم ہے۔ 1973مےں بھارت کی سپرےم کورٹ نے بھی آئےن سے متصادم ترامےم کے حوالے سے فےصلہ دےا تھا، ہم نے سپرےم کورٹ میں21وےں آئےنی ترمےم کے حوالے سے سےر حاصل بحث کی، اب سپرےم کورٹ کو فےصلہ کرنا ہے۔ واضح رہے کہ متعدد وکلائ21وےں ترمےم کی انتہائی جاندار دلائل کےساتھ مخالفت کرتے رہے ہےں، سےد ظفر علی شاہ نے اےوان بالا مےں عوامی جذبات کی درست ترجمانی کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس طرح کسی سوےلےن کو کور کمانڈر نہےں بناےا جا سکتا اسی طرح کسی فوجی کو جج نہےں بناےا جا سکتا، کےا عوام نے حکومت کو فوجی عدالتوں کے قےام کا مےنڈےٹ دےا تھا؟ ہمےں فوج سے کوئی تکلےف نہےں لےکن آرمڈ فورسز کو وہی کام کرنے دےں جس کی انہےں تربےت دی گئی ہے۔ حامد خان کا موقف تھا کہ قوم نے ڈکٹیٹر شپ کے تین دور دیکھے ہیں اور فوجی عدالتیںبھگت چکی ہے ،لیکن فوجی عدالتیں دہشت گردی کے خاتمہ کا حتمی ذریعہ نہیں۔ اس وقت آٹھ ہزار کے قریب قیدی سزائے موت کے منتظرہیں لیکن عدلیہ کے فیصلوںپر انتظامیہ عمل درآمد کرانے میں ناکام رہی ہے، اکیسویںترمیم کے حوالے سے پارلیمنٹ میں بحث نہیں کرائی گئی، وردی والوں کی موجودگی میں ووٹ دےاگیا ایسے میں پارلیمنٹ کو ڈکٹیٹ نہ کرنے کی بات قرین انصاف نہیں، حالیہ دنوں فوجی عدالتوں سے چھ ملزموں کو سزائے موت سنائی گئی تاہم اس دوران مقدمہ خفیہ رکھا گیا نہ گواہوں کاپتہ ہے نہ ملزموں کا، نہ کیس سننے والے کا ،نہ فیصلہ دینے والے کا اور نہ اپیل کا حق ملتاہے جو انصاف کے تقاضوںکوپورا نہیں کرتا۔ دےگرمتعدد بڑے قانون دان اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی21ترمےم اور فوجی عدالتوں کے قےام کے مخالف ہےں۔
قانونی ماہرین