’’میرے وطن تیرے بیماروں کو ہمیشہ بجھوائیں گے باہر‘‘

ہر آدمی کے پاس اس قدر تو پیسہ نہیں ہے کہ وہ بیرون ملک میں جا کر علاج کروائے، وزیر اعظم کے پاس تو سرمایہ ہے لیکن ایک غریب جسے دو وقت کی روٹی نہیں ملتی وہ کیا کرے وزیر اعظم ملک واپس آنے کے بعد ہر ضلع میں ایک جدید ہسپتال بنوائیں جس میں دل کے علاج سے لیکر ہر بیماری کا علاج ہو سکتا ہو اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو پھر ہر شہری کو کے بیرون ملک علاج کا بندوبست کریں۔ حقیت یہ ہے کہ جب کسی معاشرے میں نااہل، کرپٹ، اقربا پرور اور خوشامدی لوگ ذمہ دار بنا دئیے جاتے ہیں تو اس معاشرے میں کرپشن، لوٹ کھسوٹ، رشوت اور بدعنوانی کا پایا جانا یقینی ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار بہت گھمبیر ہے ۔ سرکاری ہسپتال کے دروازے سے داخل ہوتے ہی انسان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ کسی ہسپتال کے بجائے جیل میں پہنچ گیا ہے۔ ایمرجنسی وارڈ میں ایک بیڈ پر دو دو مریضوں کو لیٹا ہوا دیکھ کر مریضوں اور ان کے لواحقین کی بے بسی اور لاچارگی کا احساس دل کو زخمی کر دیتا ہے۔ وارڈز کے اندر ڈاکٹرز موبائل فون پر گپ شپ اور ہنسی مذاق میں مگن نظر آتے ہیں اور موبائل فون کے بند ہوتے ہی اپنے ساتھی ڈاکٹرز کے ساتھ گپ شپ لگانا اپنی ڈیوٹی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف مریض یا تو موت کے منہ میں چلا جاتا ہے یا موت کے بہت ہی قریب ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹرز کی بے حسی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے کئی مریض تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں۔ پنجاب میں تو ایسا کوئی آدمی ہی نہیں مل رہا جسے صحت کا قلمدان سونپا جا سکے ،بس مشیر صحت سے ڈنگ ٹپائو کا کام لیا جا رہا ہے ۔حکومت نے ہسپتالوں کی چیکنگ کے لیے آن لائن چیکنگ کا سسٹم نکالا تھا جس کے تحت روزانہ کی بنیاد پر تصویروں کے ساتھ دیکھا جاتا تھا ۔ای ایز (MEAs) نے اب تک مجموعی طور پر 154 ضلعی اور تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتالوں کے 432 دورے کئے اور وہاں پر صفائی اور حفاظتی انتظامات کے حوالے سے 10607 تصاویر ڈیٹا بیس سسٹم میں اپ ڈیٹ کیں۔ ایم ای ایز کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر حاصل کی جانیوالی تصاویر کو ضلعی اور تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتالوں میں موجودہ صورتحال کے حوالے سے شہادت تسلیم کیا گیا ۔ وزیر اعلی پنجاب، ،مشیر صحت، سیکرٹری صحت اور دیگر حکام کو اس ڈیٹا بیس کو دیکھ کر صورتحال کا جائزہ لیتے تھے۔ ہسپتالوں میں موجود سازوسامان، ادویات، روشنی، لیبر رومز کی صورتحال کے بارے میں بھی معلومات جمع کی جاتی تھیں اس کے علاوہ ایم ای ایز ہسپتالوں میں عملے کی حاضری سے متعلق ریکارڈ بھی روزانہ کی بنیاد پر نہ صرف اپ ڈیٹ کرتے تھے بلکہ ڈاکٹروں اور ہسپتال کے عملے کی حاضری کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی تھی لیکن اس نظام کو بھی بیوروکریسی نے ناکام بنا دیا ہے ۔لاہور کے میو ہسپتال میںدو سی ٹی سکین مشینیں ہیں لیکن یہ دونوں اکثر خراب ہوتی ہیں ۔ محکمہ صحت پنجاب کی عدم توجہ سے پنجاب کے سب سے بڑے میو ہسپتال میں مریضوں کو مکمل طبی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں ، پروفیسرز اور سینئر ڈاکٹرز ہسپتال کی ادویات لکھنے کی بجائے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ادویات لکھنے کو ترجیع دیتے ہیں ۔ سرجیکل ٹاور کا منصوبہ گزشتہ 11برسوں سے مکمل نہ ہوا۔ مفت ادویات اور مفت ٹیسٹ کیلئے مریضوں کو خوار ہو رہے ہیں۔ 24سو بیڈز پر میو ہسپتال کی بلڈنگ انتہائی تاریخی حیثیت کی حامل ہے۔ محکمہ صحت پنجاب، سی اینڈ ڈبلیو نے اس تاریخی ورثے کو بچانے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے۔ سرجیکل ٹاور کی 2005 ء سے تعمیر شروع ہے مگر آج تک تعمیر مکمل نہیں ہو سکی۔ محکمہ صحت پنجاب نے کہا تھا کہ30جون 2015 کو سرجیکل ٹاور مکمل ہو جائے گا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ سرجیکل ٹاور 580 بیڈز پر مشتل نیا یونٹ ہے جس کی تعمیر سے 60 نئے آپریشن تھیٹرز دستیاب ہو جاتے۔لیکن حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے یہ مسئلہ ابھی تک توں کا جوں ہے۔ مشینیں خراب ہونے کی وجہ سے یا تو مریض دوسرے ہسپتالوں کو ریفر کر دئے جاتے ہیں۔خادم پنجاب تو اس معاملے میں بڑے حساس ہیں لیکن ان کی ناک کے نیچے سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار جوں کی توں ہی ہے بلکہ زیادہ تر دیہی مراکز صحت کی حالت پہلے سے ابتر ہے دیہی مراکزِ صحت میں اکثر جگہ عملہ ہی پورا نہیں ہوتا اور اگر سٹاف ہو بھی تو ڈاکٹرز غائب ہوتے ہیں وہ مل جائیں تو ادویات میسر نہیں ہوتیں اور مشینری تو سرے سے ہی موجود نہیں ہے ۔بلوچستان حکومت کے بھی مکمل صحت میں بہتری لانے کے دعوے صرف دعوے رہ گئے تین سال کے دوران 47 ارب روپے سے زائد رقم خرچ ہونے کے باوجود سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار نہیں بدلی اور نہ ہی مریضوں کو بنیادی سہولیات فراہم ہوئی اطلاعات کے مطابق سابق وزیراعلیٰ کے دور حکومت میں محکمہ صحت کے شعبے میں بہتری لانے کیلئے 3 سال کے دوران47 ارب روپے سے زائد رقم خرچ کرنے کے باوجود صوبے میں بنیادی سہولیات کے اچھے نتائج نہیں ملے اور نہ ہی سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار بدلی۔ کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ٹراما سینٹر بنا نے کے باوجود فعال نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے صوبے کے دور دراز علاقوں سے آنیوالے غریب مریضوں کو مشکلات کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے اور حکومتی دعوے صرف اخباری بیانات تک محدود ہیں۔ دیہی علاقوں میں ہسپتال میں ڈاکٹرز کی سہولیات میسر نہیں ہے کوئٹہ کے سول اور بی ایم سی ہسپتال آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے اور ان ہسپتالوں میں سٹی اسکین ،ایم آر آئی کی مشینیں خراب ہیں حال ہی میں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے سرکاری ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات نہ ہونے کے خلاف2 ماہ تک سڑکوں پر احتجاج کیا اور تین سال کے دوران بھی مریضوں کو سرکاری ہسپتالوں میں و ہ سہولیات فراہم نہ ہوئی سندھ صحت کے محکمے کا اللہ ہی حافظ ہے تھر میں موت کا رقص جاری ہے لیکن کوئی توجہ ہی نہیں کر رہا ہے۔

ای پیپر دی نیشن