انسان کی تخلیق پر جب فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی مولا کریم اس انسان کو جس کو آپ اپنا نائب بنا کر زمین پر بھیج رہے ہو اسکے خمیر میں آپ نے ازل سے لیکر ابد تک شّر اور برائی کی صفت تو ڈالی ہی ہے اوپر سے آپ نے شیطان کو یہ اختیار بھی تجویز کر دیا ہے کہ وہ انسان کو اپنے اختیار کی آخری حد تک ورغلا سکتا ہے اس لیے یہ انسان تو دنیا میں بہت فساد پیدا کرے گا جس پر اللہ تعالی نے فرمایا کہ جنکے دلوں میں میرا خوف ہوگا بیشک وہ شیطان کے بہکاوے میں نہیں آئینگے اور ا±نہیں شیطان ہر گز کسی بھی قیمت پر ورغلا نہیں سکے گا۔ قارئین اس ایک فقرے کی تشریح کہ وہ کون ہیں جنکے دلوں میں خدا کے خوف نے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں میں کسی بحث میں جانا نہیں چاہونگا البتہ اس سلسلے آپ کی توجہ ایک دفعہ پھر اپنے پچھلے کالم کی طرف مبذول کروانی چاہونگا جس میں ایک جاپانی لڑکی "می وا" کا ذکر ہوا تھا جس نے رمضان کے مبارک مہینے کے شروع ہونے پر ایک مسلمان عورت سے پوچھا کہ یہ تم جو ماہ رمضان میں سارا دن بھوکے پیاسے رہتے ہو اس سے تمہیں کیا ملتا ہے جس پر مسلمان عورت نے بتایا کہ روزہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں بلکہ اس میں جھوٹ ، غیبت، بے ایمانی، منافقت، ناجائز منافع خوری اور دوسرے ب±رے کاموں سے پرہیز شامل ہے تو اس جاپانی لڑکی می وا نے کہا کہ پھر تو آپ کی موجیں ہی موجیں ہیں ہمیں تو یہ کام سارا سال کرنا پڑتا ہے۔ قارئین اوپر بیان کردہ یہ ایک چھوٹا سا بیانیہ شائد اس سوال کا جواب دینے میں معاون ہو سکے کہ وہ کون ہیں جنکے دل میں خدا کا خوف بسا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں بابا ب±لھے شاہ کے کلام کا ایک اقتباس پیش کرنا چاہونگا
رَب رَب کر دے بڈھے ہو گئے، م±لاں پنڈت سارے
رَب دا کھوج ک±ھرا نہ لبھیا، سجدے کر کر ہارے
رَب تے تیرے اندر وسدا، وِچ قرآن اشارے
ب±لھے شاہ رَب اوہنوں مل سی جہھڑا اپنے نفس ن±وں مارے
ساری بات کا ایک ہی نچوڑ عمل کو وعظ پر فضیلت۔ باقی سب دھوکہ اور یہی ہمارا آجکا سب سے بڑا المیہ بشمول راقم ہے کہ ہر کوئی وعظ کرتا نظر آتا ہے اکثریت عمل سے خالی۔ پچھلے کالم کے آخری حصے میں میں نے دو الفاظ آگاہی اور شعور کا بھی ذکر کیا۔ جیسے ہی پچھلے ہفتے بروز بدھ میرا کالم شائع ہوا تو اسکی اشاعت کے کچھ ہی گھنٹوں بعد ہمارے ایک بہت ہی خوبصورت دوست حارث بلال جو کہ آئی ٹی کی دنیا سے وابستہ ہیں اور اس فیلڈ میں انکا بڑا نام بھی ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ ادب کے ساتھ انکا جو لگاو¿ اور مطالعہ ہے اسکی بنیاد پر میں انکا شمار انٹلیکچولز میں کرتا ہوں انکا مجھے ٹیلیفون آیا۔ فرمانے لگے طارق بھائی اپنے کالم میں اپ نے دو الفاظ کا بڑا خوبصورت استعمال کیا ہے جن میں ایک لفظ آگاہی اور دوسرا شعور ہے۔ فرمانے لگے اس میں کوئی شک نہیں کہ مسائل کی نشاندہی کر کے آپ اپنے قاری کو آگاہی ضرور دے رہے ہیں لیکن ان مسائل کے حل کیلیئے لوگوں کا شعور ا±جاگر کرنا بھی تو آپ ہی کا فرض ہے۔ پہلے پہل تو حارث بھائی کی باتیں سن کر فیض صاحب کا ایک قصہ یاد آ گیا۔ کہتے ہیں ایک دن دوستوں کی محفل میں بیٹھے فیض صاحب اپنا کلام سنا رہے تھے ایک منچلے سے رہا نہ گیا بولا فیض صاحب مزہ دوبالا کرنے کیلیئے کلام کو ذرا ترنم سے پڑھیے۔ جس پر فیض صاحب برجستہ بولے کہ سارے کام ہم نے ہی کرنے ہیں کوئی کام اپ بھی کیجیئے۔ فیض صاحب کے قصے کے تناظر میں حارث صاحب کی شعوری بیداری کی ذمہ داری والی بات پر ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ٹی وی پر تین واقعات ایسے دیکھنے کو ملے جس پر دل چاہا کہ حارث بھائی کو فوراً فون کروں اور انھے کہوں کہ شعور بیدار کرنے والی ذمہ داری سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں آزاد کر دیا ہے اور اب یہ ا±مید بندھ چلی کہ آنے والے دنوں میں میری اس قوم کو شعوری بیداری کیلیئے مجھ جیسے ک±ند ذہنوں کی اب ضرورت نہیں رہے گی کیونکہ وہ چراغ جنکے روشن ہونے کیلئے ایک دُعا ہی کی جاتی تھی خدا کے فضل سے اس ملک کی تاریک گلیوں اور ویران درگاہوں پر وہ چراغ خود بخود جل ا±ٹھے ہیں جو اب اُجالا کر کے ہی دم لیں گے۔ اس سلسلے میں پہلا واقعہ ڈیرہ غازی خان کا ہے جہاں ایک نہتے مجاہد نے وہاں کے ایک سردار جمال خان لغاری کو اسکی اوقات بتائی ہے دوسرا واقعہ ا±ن سالاروں کی بہادری کا منہ بولتا ثبوت ہے جنہوں نے کشمور کے سردار سلیم جان مزاری کا راستہ روک کر یہ احساس دلایا ہے کہ پاکستانی قوم اب بکاو¿ مال نہیں اور تیسرے واقعے میں سلام ان جانبازوں پر جنہوں نے ملتان میں سکندر بوسن کی خبر لیکر سیاسی اشرافیہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ اب ہر حلقے کی تقدیر کا فیصلہ وہاں کے عوام کرینگے نہ کہ وہ قائدین جو تین تین سو کنال کے گھروں جاتی امراء کے سولہ سو کنال یا پھر بحریہ ٹاون کے بنکروں میں بیٹھ کر عوام کو گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں۔ قارئین راقم کوئی سیاسی پنڈت نہیں۔ نجم سیٹھی صاحب کی چڑیا کیا غائب ہوئی ہمارا چڑا بھی اسکے پیچھے پیچھے بھاگ گیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک تیسری آنکھ بھی دی ہے جو یہ دیکھ رہی ہے کہ پچھلے کچھ عرصہ سے جو شہزادہ قالین پر بیٹھ کر ہواو¿ں میں ا±ڑ رہا تھا عنقریب اسکے نیچے سے قالین کھینچا جانے والا ہے۔ بڑے بڑے پہلوان دس چھیکا ساٹھ اور دس ساتے ستر تک کے پہاڑے تک پہنچتے نظر آتے ہیں قسمت والا ہی ہو گا جو اٹھ دایا اسی تک پہنچے۔
چھوٹے ہوتے سنتے آئے تھے "نِکا سب ت±وں تِکھا" دیکھیں یہ محاورہ کہاں تک سچ ثابت ہوتا ہے۔ جاتے جاتے اس پر غور ہو جائے کہ لفظ "آزاد" کی کتنی اہمیت ہوتی ہے اسکا پتہ 26 جولائی کے بعد چلے گا اور یہ بھی پتہ چلے گا کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے ایوان صدر کا مکین کہیں کوئی پاکستان کا ڈونلڈ ٹرمپ تو نہیں ہو گا