وعدہ فردا.... گلیشیئر آپکے در پر!!

تیل کی دریافت سے دولت کی ریل پیل ہوئی تو عربی اونٹوں سے گاڑیوں پر آگئے۔ انکے نزدیک ایک گاڑی کی لمبائی سٹیٹس کی علامت ہوا کرتی تھی۔ وہ گاڑی خریدتے وقت باقاعدہ اسکی پیمائش کرتے۔ ایسا بھی ہوا کہ پٹرول ختم ہونے پر گاڑی بند ہوتی تو شیخ نے یہ کہہ کر وہیں چھوڑ دی کہ یہ مر چکی ہے۔ اسی دور میں ایک امریکی نے ایک پُرکشش پیشکش کی۔ یہ زندگی مزید آسان بنانے کا پراجیکٹ تھا۔ اس نے کہا کہ وہ گرین لینڈ سے آئس برگ پر کھینچ کر جدہ کے ساحل پر لا سکتا ہے جس سے ایک تو پینے کا میٹھا پانی دستیاب ہوگا‘ دوسرے گرمی کی بے حال کر دینے والی شدت یخ بستہ ہواﺅں میں بدل جائیگی۔ حکومت نے اسے اس منصوبے پر کام کرنے کی اجازت دیتے ہوئے ایڈوانس بھی 25 ملین ڈالر ادا کر دیئے ہیں۔ اس پراجیکٹ کے حوالے سے میڈیا میں خبریں شائع ہوئیں تو دنیا میں شور مچ گیا۔ آئس برگ کو گرین لینڈ سے کھینچ کر لانا ممکن ہی نہیں۔ آئس برگ اگر ایک ہزار فٹ پانی کے باہر تو 9 ہزار فٹ پانی کے اندر نیچے ہوتا ہے۔ اب تک آئس برگ کو ایک سے دوسری جگہ لے جانے کی ٹیکنالوجی ایجاد نہیں ہوئی۔ اگر ایسا مستقبل میں ممکن ہو سکے تو گرین لینڈ سے جدہ تک راستے میں آنےوالے ممالک کو سمندری طوفان کا سامنا کرنا پڑےگا۔ میڈیا میں شور شرابے سے یہ معاہدہ کاغذی کارروائی بھی پوری طرح مکمل نہیں کر سکا تھا‘ لیکن امریکی انجینئر ڈالروں کی بوری سمیٹ کرجا چکا تھا جوکبھی سعودی عرب واپس نہیں آیا۔
عربوں نے امریکی انجینئر سے فریب کھایا اور 25 ملین ڈالر سے انکی تسلی ہو گئی۔ وہ انجینئر پوری رقم بھی ایڈوانس مانگ کر آدھی تو حاصل کر ہی لیتا۔ لگتا ہے سعودی عرب کے ”تجربے“ سے متحدہ عرب امارات نے استفادہ کیا ہے۔
نیوز ویب سائٹ آئی بی ٹی کی رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات نے قطب جنوبی سے برفانی تودے ،آئس برگ کھینچ کر اپنے ساحل پر لانے کا منصوبہ ترتیب دیا جن کی برف کو پانی میں تبدیل کیا جائےگا۔ متحدہ عرب امارات کا شمار پانی کی کمی کے شکار 10 سرفہرست ممالک میں ہوتا ہے۔ پانی کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کیلئے نیشنل ایڈوائزر بیورولمیٹڈ (NABL) اماراتی کمپنی ، برفانی تودوں کو انٹارکٹیکا سے کھینچ کر مشرقی امارت فجیرا لانے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر عبداللہ محمد سلیمان کہتے ہیں کہ ایک اوسط آئس برگ سے 20 ارب گیلن سے زائد پانی حاصل ہو سکتا ہے۔ پانی کی یہ مقدار 75ارب لٹر کے برابر ہے، جو 10 لاکھ افراد کی ضرورت پانچ سال سے زائد عرصے کیلئے پوری کرسکتی ہے۔
ایک سال قبل اماراتی کمپنی کا کہناتھا کہ اسکی فزیبلٹی رپورٹیں ظاہر کررہی ہیں کہ یہ منصوبہ بہت کامیاب ہوگا۔ اس وقت کہا گیا انٹارکٹیکا سے آئس برگ کو فجیرا لانے میں تقریباً ایک سال کا عرصہ لگے گا۔ اب ایک سال ہوچکا‘ ابھی وہ بحری جہاز اور آئس برگ کو باندھ کر لائی جانےوالی بیلٹیں اور رسے نظر نہیں آئے۔ انگریز دور میں ریلوے لائن بچھنے لگی تو ہندوستان میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ بقراطوں اور سقراطوں نے ہندوستانیوں کو بروقت خطرے سے آگاہ کیا کہ انگریزلوہے کی ان زنجیروںسے ہمارا ملک کھینچ کر ولایت لے جائیگا۔ امارات والے ہمارے بھائی آئس برگ کھینچنے کیلئے وہ زنجیریں دس پندرہ دن کیلئے مستعار لے سکتے ہیں۔منصوبہ سازوں کے نزدیک اس منصوبے کا بنیادی مقصد پانی کا حصول ہوگا، تاہم موسم میں بھی بہتری آئےگی ۔ بارشیں زیادہ ہوں گی ۔ ہوا ٹھنڈی ہوجائیگی۔ سال بھر موسم خوشگوار رہے گا۔ یہی امریکی انجینئر نے سعودی عرب کو بتایا تھا۔
ہمارے ہاں انتخابی مہم کا آغاز ہو چکا ہے۔ سیاستدان عوام کی خدمت کے دعوﺅں کے ساتھ انکے در پر موجود ہیں۔ انتخابی مہم کو گرمانے والی ہر پارٹی اقتدار میں رہی۔ اب پھریہ عوام کو سبز باغ دکھا رہی ہیں۔ موسم کو یخ بستہ بنانے کیلئے گلیشیئر کو کھینچ کر عوام کی دہلیز پر لانے جیسے دعوے کر رہی ہیں۔ پانچ سال میں ایسا کیوں نہ کر دکھایا۔ عوام انکے جلسوں‘ میٹنگوں اور بیٹھکوں میں یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں اور ایسے سوال کئی جگہوں پر جوتے کی نوک پر بھی پوچھے جا رہے ہیں۔
انتخابی مہم میں الزام‘ دشنام اور تہمت و بہتان سب روا رکھا جا رہا ہے ۔اس سے عوامی رائے عامہ گمراہ ہو سکتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں جہاں اپنی فیور میں سرویز شائع کراتی ہیں وہیں مخالفین کے سکینڈل بھی اچھالنے سے گریز نہیں کرتیں ۔ ایسے سکینڈل بھی مخالفین کی شہرت کو نقصان پہنچاتے ہیں اگر غیر ملکی میڈیا متنازعہ رپورٹ جاری کردے تو یہ اس پارٹی کےلئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوتی ہے جس کے مخالفین سکینڈلوں کی زد میں آتے ہوں ۔ ایسا ہی ایک سکینڈل برطانوی جریدے ڈیلی میل نے شائع کیا ہے۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل نے دعویٰ کیا ہے نواز شریف اور انکے بچے برطانیہ میں 3 کروڑ 20 لاکھ پاﺅنڈ کی جائیدادوں کے مالک ہےں۔لندن فلیٹس تو انکی وسیع و عریض جائیدادِ سلطنت کا محض ایک حصہ ہیں۔ ایون فیلڈ کے علاقے میں پاکستان کے امیر ترین سابق وزیراعظم نوازشریف نے چار لگژری فلیٹس کو ملا کر ایک وسیع و عریض عمارت میں تبدیل کرلیا جو 1993ءسے انکے زیر استعمال ہے۔ اسکی مالیت اس وقت 70 لاکھ پاﺅنڈ ہے۔ نواز شریف کے ساتھ لندن فلیٹس حسن، حسین، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے بھی زیر استعمال ہیں۔ اخبار نے ان فلیٹس کی اندرونی تصاویر بھی شائع کی ہیں جن کو دیکھ کر فلیٹس کی بجائے کسی محل کا گماں ہوتا ہے۔ شریف خاندان پر لندن فلیٹس کے علاوہ غیر قانونی پیسے سے برطانیہ کے پوش علاقوں مے فیئر، چیلسی، بلگراویا میں 21 جائیدادیں خریدنے کا الزام ہے۔ نوازشریف کا محل ان جائیدادوں میں سے ایک ہے جو روسی رو¿سا کے علاوہ کسی نے کھڑی نہیں کیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے نوازشریف کی جائیدادوں کی مجموعی قیمت تقریباً 32ملین پاو¿نڈز کے برابر ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی ترجمان اور سابق وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے برطانوی اخبار نے اپنی خبر کو خاص رنگ دیکر پاکستان میں زیرسماعت مقدمے پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہے ۔ ایسی خبر کی اشاعت سے مقدمے کے نتائج پر سوالات اٹھیں گے۔ پاکستان میں انتخابات کے موقع پر برطانوی اخبار کا ایسی خبر شائع کرنا سیاسی مخالفین کو فائدہ پہنچانے کی سازش ہے۔شریف فیملی کے بقول یہ خبر بے بنیاد ہے۔ میاں نواز شریف کو ڈیلی میل کیخلاف اسی طرح برطانوی عدالت جانا چاہیے جس طرح چودھری برادران گئے تھے۔چودھری شجاعت حسین اپنی کتاب ”یہی سچ ہے“ میں ایک واقعہ لکھتے ہیں:
”10 اگست 1991ءکی ایک صبح قومی اخبارات میں جلی سرخیوں کے ساتھ لندن کے اخبار ”گارڈین“ کے حوالے سے ایک خبر شائع ہوئی کہ ہم نے بی سی سی آئی سے پچاس لاکھ پاﺅنڈ کا قرضہ لیکر سات لاکھ پاﺅنڈ معاف کروایا ہے۔
28 نومبر کو اعجاز حسین بٹالوی اور محمود اے شیخ کی وساطت سے لندن کی ایک مشہور فرم پیٹر کارٹررک (Peter Carter Ruck) کے ذریعے ہائیکورٹ آف جسٹس کوئنز برانچ ڈویژن میں ”گارڈین“ کےخلاف ہتک عزت کی پٹیشن دائر کر دی گئی۔ میں چونکہ وزیرداخلہ بھی تھا‘ لہٰذا اب مجھے صلح کرنے کیلئے ہرطرف سے سفارشیں آرہی تھیں۔ اس پر ہم نے تجویز کیا کہ ”گارڈین“ اس خبر کی تردید اور اپنا معافی نامہ اخبار کے پہلے صفحے پر شائع کرے اور ہمارے تمام اخراجات‘ وکیلوں کی فیسیں مع برطانوی فرم کی فیس ادا کرے۔ ”گارڈین“ کی انتظامیہ نے یہ سب کچھ کیا تو پھر ہم نے معافی دی۔“چودھری شجاعت لکھتے ہیں کہ جون 1981ءمیں لندن کے ایک اخبار میں چھپنے والی ہتک آمیز خبر پر کوئنز کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی۔ کورٹ نے اس پبلیکشنز کو ایک کیس میں 25، دوسرے میں 35ہزار پاﺅنڈ ہرجانہ ادا کرنے کی سزا دی تھی۔ نوازشریف بھی بے بنیاد خبر کےخلاف ڈیلی میل کوئنز کورٹ لے جائیں جس سے انکی متاثرہ ساکھ بحال ہو گی اور کروڑوں پاﺅنڈ بھی ہر جانے کے طور پر ملیں گے۔ کوئنز کورٹ ایسی نہیں کہ عمران کیخلاف شہبازشریف کے ہرجانہ کیس کی طرح کیس لٹکے رہیں۔ شریف فیملی اپنی طرف توپوں کے رخ کا جواب زوردار طریقے سے دیں‘ محض ”تیری توپوں میں کیڑے پڑیں“ کے ماتم سے سرخرو نہیں ہو سکتے۔

ای پیپر دی نیشن